1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور ایران اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مشترکہ میدان کی تلاش میں، جائزہ

عاطف توقیر23 ستمبر 2014

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چاہے امریکا کو پسند ہو یا نہ ہو، مگر شام اور عراق کی شیعہ حکومتوں کا اتحادی ایران سنی شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں ایک کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1DJ7y
تصویر: Reuters/B. Smialowski

روئٹرز کے مطابق یہ ممالک مشرق وسطیٰ میں زیادہ تر معاملات میں اختلافات کے باوجود اب عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر قابض سنی شدت پسندوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے حوالے سے ایک متفقہ نکتہء نظر کے حامل ہیں۔ حالاں کہ امریکا ایران پر واضح کر چکا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اقدامات فرقہ ورانہ بنیادوں کی بجائے عراقی اور شامی عوام کے تحفظ کے ارادے سے کرے۔

روئٹرز کے مطابق ’میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے‘ کی کہاوت پرانی ہے، تاہم مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال میں یہ محاورہ بہت حد تک صادق آتا ہے، جہاں برسوں کی عدوات کے حامل امریکا اور ایران اب سنی شدت پسندوں کے پیش قدمی کے تناظر میں ایک ہی صفحے پر دیکھے جا سکتے ہیں، اس کے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تعاون کرتے نظر نہیں آتے۔

Ghasem Soleymani in Irak
ایرانی جنرل اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عراقی حکومت کی امداد کے لیے بغداد کا دورہ کر چکے ہیںتصویر: entekhab

تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کا اس صورت میں بھی بہت زیادہ قریب آنا، خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اسلامک اسٹیٹ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی اتحاد کا اعلان کیا، تو اس میں بھی ایران کو شامل نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب ایران نے بھی اس سلسلے میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ امریکی قیادت میں اس عالمی اتحاد کا حصہ بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

روئٹرز کے مطابق امریکا کے موجودہ اور سابقہ حکام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ کے خطرات اور مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے امریکا اور ایران کو مل کر کام کرنا چاہیے، تاکہ اس سلسلے میں ایرانی کردار زیادہ سے زیادہ حد تک مثبت ہو۔

ماضی میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں کی حکومت میں مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے بطور مشیر کام کرنے والے ڈیوڈ مِلر کے مطابق، ’ایرانی فوجی عراق اور شام میں موجود ہیں، تاہم ہمارے فوجی زمینی کارروائیوں میں شامل نہیں۔ وہ لازمی طور پر اس صورت حال میں ایک فریق ہیں، تاہم اس پر ہمیں فکرمند ہونے کی بھی ضرورت ہے۔‘

امریکی ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں ایران کے ساتھ مل کر کام نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے کے لیے اقدامات میں ایک دوسرے کے خلاف لڑائی شروع نہ ہو جائے اور دوسری وجہ یہ کہ اس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا معاملہ بھی پیدا نہیں ہو گا۔