امریکا اور طالبان کے درمیان سست رفتار مذاکرات ختم
10 مئی 2019امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے مذاکراتی عمل کے اختتام پر کہا کہ امن مذاکرات کے چھٹے دور میں کئی چھوٹی بڑی تفصیلات کو زیر بحث لایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان جنگ کے خاتمے کے نظام الاوقات کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت سست انداز میں آگے بڑھی ہے۔
خلیل زاد نے امن مذاکرات کو تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کو اہم قرار دیا۔ امریکی مندوب کے بقول امید ہے کہ طالبان افغانستان میں پرتشدد حملوں کے سلسلے میں کمی کی تجویز پر راضی ہو جائیں گے۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق موجودہ مذاکراتی عمل کی رفتار مناسب نہیں کیونکہ مسلح تنازعے کی وجہ سے معصوم افراد کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے مذاکراتی دور کو تعمیری اور مثبت قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ بات چیت کے ختم ہونے والے سلسلے میں سب سے مشکل نکتہ غیر ملکی افواج کی واپسی کا ہے۔ طالبان کے سیاسی ترجمان کے مطابق مخالف فریقین امن بات چیت کے ایک اور دور میں شریک ہوں گے۔ شاہین نے مذاکرات کے ساتویں دور کے شروع ہونے کی کوئی تاریخ نہیں بتائی۔
طالبان کے سیاسی ترجمان کے مطابق چھٹے مذاکراتی دور میں فریقین نے ایک دوسرے کی موقف کو تحمل اور محتاط انداز میں سنا، جو بہت ہی اہم تھا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق امریکا کسی بھی معاہدے پر راضی ہونے سے قبل طالبان سے سکیورٹی ضمانتوں کا طلب گار ہے تا کہ وہ بعد میں سمجھوتے کی خلاف ورزی نہ کر سکیں۔ اسی طرح امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ طالبان مکالمت کی ضمانت دیں اور یہ مکالمت طالبان اور کابل حکومت کے علاوہ افغان عوام کے مختلف دھڑوں کے درمیان بھی ہونی ضروری ہے۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل ایسے وقت میں ختم ہوا ہے، جب طالبان عسکریت پسندوں نے کابل میں امریکی امداد سے چلنے والی ایک غیرحکومتی تنظیم ’کاؤنٹر پارٹ انٹرنیشنل‘ کے دفتر کو بدھ آٹھ مئی نشانہ بنایا تھا۔ شدت پسندوں کے اس حملے میں نو افراد مارے گئے تھے۔