امریکا اور طالبان کے مذاکرات کا آٹھواں دور
3 اگست 2019امریکا کی نمائندگی زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں جو مسلسل کئی ادوار میں طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہو چکے ہیں۔ وہ تین اگست سے شروع ہونے والے مذاکراتی دور میں شریک ہونے کے لیے جمعہ دو اگست کی رات دوحہ پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے دوحہ پہنچ کر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکا طالبان کے ساتھ امن ڈیل کو طے کرنے کی کوششوں میں ہے اور یہ فوجیوں کے انخلا کی ڈیل نہیں ہو گی۔
اپنے ٹویٹ میں زلمے خلیل زاد نے یہ بھی واضح کیا کہ امن معاہدے میں یقینی طور پر امریکی فوج کے انخلا کا عمل بھی شامل ہو گا اور افغانستان میں امریکی موجودگی کی شرائط کو بھی شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے افواج کے انخلا کو مشروط قرار دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان بھی امن معاہدے پر دستخط کرنے کے اشارے دے چکے ہیں۔
امن سمجھوتے کے طے پانے کا امکان تیرہ اگست تک ظاہر کیا گیا ہے۔ طالبان معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ضمانتیں بھی فراہم کریں گے۔ طالبان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایک بہتر امن ڈیل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بین الاقوامی سفارتکاروں اور تجزیہ کاروں نے خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے اس نئے مذاکراتی دور کو انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے۔ سینیئر امریکی اہلکاروں کا بھی خیال ہے کہ اس مرحلے میں فریقین کسی امن معاہدے پر متفق ہو سکتے ہیں، جس سے اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔
معاہدہ ہونے کی صورت میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا نظام الاوقات کا اعلان ممکن ہے۔ مذاکرات کا یہ نیا دور ایسے وقت پر شروع ہو رہا ہے، جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور ٹیلی وژن چینل سی این این نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت افغانستان سے اپنے ہزاروں فوجیوں کی واپسی کی تیاریوں میں ہے۔ ان میڈیا اداروں کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کر کے اسے چودہ ہزار سے آٹھ سے نو ہزار کے درمیان کیا جا رہا ہے۔
فوجیوں کی تعداد میں کمی طالبان اور امریکا کے درمیان جاری مذاکرات میں طے پانے والے معاہدے کا واضح نتیجہ ہو گا۔ اس امریکی حکومتی اقدام کے جواب میں طالبان کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں گے۔ ابھی تک طالبان کابل حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
ع ح، ع ت، نیوز ایجنسیاں