1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور عراق: ایک دور ختم یا نئی شروعات

18 دسمبر 2021

امریکا نے عراق میں اپنا مسلح جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن زیادہ تبدیلی کا امکان کم ہی ہے۔ دونوں حکومتوں کے مابین ہونے والا یہ نیا معاہدہ کیا محض ایک ’نیا سفارتی تھیٹر‘ ہے؟

https://p.dw.com/p/44Vgr
Irak Beiji | US Soldaten | 1st Battalion
تصویر: Jewel Samad/AFP/Getty Images

رواں ماہ کے اوائل میں امریکا نے عراق میں اپنا جنگی مشن مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مشن کے خاتمے کا فیصلہ رواں برس جولائی میں عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات اور طے پانے والے معاہدے کا نتیجہ تھا۔ دونوں لیڈروں کی بات چیت کو ''اسٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کا نام بھی دیا گیا تھا۔

عراق میں بڑھتی کشیدگی اور شیعہ گروپوں میں تقسیم

مصطفیٰ الکاظمی اور جو بائیڈن معاہدہ

جو بائیڈن اور مصطفیٰ الکاظمی کی ملاقات میں کئی اہم نوعیت کے فیصلے لیے گئے تھے اور اسی میں ایک اصولی فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکا اکتیس دسمبر سن 2021 کو عراق میں جاری اپنا جنگی مشن ختم کر دے گا۔ اب اس جنگی مشن کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔

USA I Joe Biden und Mustafa al-Kadhimi
عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے رواں برس جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھیتصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

نو دسمبر کو عراق کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر قاسم العراجی نے واضح کیا کہ اب دونوں ملکوں میں قائم سکیورٹی تعلقات کو عراقی فوج کی تربیت، مشاورت، معاونت اور انٹیلیجنس کے تبادلے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ رواں برس کے اختتام پر عراق میں امریکا کا کوئی ایسا فوجی نہیں رہے گا، جس کا عراق میں کوئی جنگی کردار ہو گا۔

دونوں ملکوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ عراق میں امریکی فوجیوں کے زیر استعمال فوجی اڈے کُلی طور پر عراقی فوج کے ٹھکانے ہوں گے اور ان میں اگر امریکی موجود بھی ہوں گے تو وہ عراقی قوانین کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔

داعش کا سینیئر اہلکار اور مالی امور کا نگران عراق میں گرفتار

مبینہ 'سفارتی تھیٹر‘

معتبر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے جولائی میں صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے درمیان طے پانے والے نئے معاہدے کو مبینہ 'سفارتی تھیٹر‘ کا ایک نمونہ قرار دیا تھا۔ ایک اور جریدے سیبیرین نیوز کا کہنا ہے کہ امریکا اور عراق کے درمیان طے پائے گئے معاہدے نے کاغذ پر عراق میں متعین امریکی فوجیوں کی حیثیت کو بظاہر تبدیل کر دیا گیا ہے اور حقیقت میں کوئی بھی فوجی واپس طلب نہیں کیا جائے گا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی فوجی جنگی مشنوں میں حصہ لیتے رہیں گے بس ان کی موجودگی کو ایک نیا نام دے دیا گیا ہے۔

Irak Baghdad Proteste USA
سن 2020 میں عراق میں امریکا مخالف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھےتصویر: Khalid Al-Mousily/REUTERS

امریکی فوج کی ضرورت

لندن کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیتھم ہاؤس سے منسلک ریناد منصور کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عراقی سیاسی رہنما، بشمول وہ جو کھل کر کہہ نہیں سکتے، اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ عراق  میں امریکی فوج کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ مشن کی تبدیلی ہے اور یہ امریکی رویے میں تبدیلی نہیں قرار دی جا سکتی۔

اس وقت عراق میں ڈھائی ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان کے علاوہ ساڑھے چار ہزار وزارتِ دفاع کے کنٹریکٹر بھی اس عرب ملک میں ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے ممالک کے ایک ہزار فوجی ہیں اور ان میں ایک سو تیس جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔

امریکا نے قدیمی عراقی ثقافت کا نایاب نمونہ واپس کر دیا

چیتھم ہاؤس کے ریسرچر ریناد منصور  کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی موجودگی دوسرے یورپی ممالک کے لیے ایک چھتری ہے اور اگر امریکا نکل جاتا ہے تو اس کی تقلید میں جرمنی بھی لامحالہ پیچھے ہٹ جائے گا۔

اقتصادی بحرانی صورت حال

بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے تجزیہ کار علا الدین کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ سے عراقی لوگ اس کی توقع کرتے ہیں کہ وہ ایک اعتدال پسند رویہ اپنائے گی اور عراق کی سلامتی کے حالات کو بہتر انداز میں سمجھ پائے گی۔ علا الدین کا مزید کہنا ہے کہ عراق کی داخلی سیاست کا رنگ ڈھنگ واضح طور پر سکیورٹی فضا سے جڑا ہے۔

USA Präsident Biden trifft sich mit dem irakischen Premierminister im Oval Office
عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھیتصویر: Iraqi Prime Ministry Press Office/AA/picture alliance

واشنگٹن میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے امن کے مڈل ایسٹ پروگرام سے وابستہ ریسرچر سرہنگ حما سعید نے جولائی میں تحریر کیا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عراق سارے خطے میں امریکا کا ایک اہم پارٹنر ہے، جو داخلی اور خارجی سیاسی قوتوں کے درمیان توازن کا باعث ہے۔ ایسا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا عراق کے تمام پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ کر نہیں دے سکتا لیکن سب سے گھمبیر مسئلہ عراقی معیشت کی بحالی ہے۔

کیتھرین شائیر (ع ح / ا ا)