امریکا اور عراق: ایک دور ختم یا نئی شروعات
18 دسمبر 2021رواں ماہ کے اوائل میں امریکا نے عراق میں اپنا جنگی مشن مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مشن کے خاتمے کا فیصلہ رواں برس جولائی میں عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات اور طے پانے والے معاہدے کا نتیجہ تھا۔ دونوں لیڈروں کی بات چیت کو ''اسٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کا نام بھی دیا گیا تھا۔
عراق میں بڑھتی کشیدگی اور شیعہ گروپوں میں تقسیم
مصطفیٰ الکاظمی اور جو بائیڈن معاہدہ
جو بائیڈن اور مصطفیٰ الکاظمی کی ملاقات میں کئی اہم نوعیت کے فیصلے لیے گئے تھے اور اسی میں ایک اصولی فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکا اکتیس دسمبر سن 2021 کو عراق میں جاری اپنا جنگی مشن ختم کر دے گا۔ اب اس جنگی مشن کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔
نو دسمبر کو عراق کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر قاسم العراجی نے واضح کیا کہ اب دونوں ملکوں میں قائم سکیورٹی تعلقات کو عراقی فوج کی تربیت، مشاورت، معاونت اور انٹیلیجنس کے تبادلے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ رواں برس کے اختتام پر عراق میں امریکا کا کوئی ایسا فوجی نہیں رہے گا، جس کا عراق میں کوئی جنگی کردار ہو گا۔
دونوں ملکوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ عراق میں امریکی فوجیوں کے زیر استعمال فوجی اڈے کُلی طور پر عراقی فوج کے ٹھکانے ہوں گے اور ان میں اگر امریکی موجود بھی ہوں گے تو وہ عراقی قوانین کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
داعش کا سینیئر اہلکار اور مالی امور کا نگران عراق میں گرفتار
مبینہ 'سفارتی تھیٹر‘
معتبر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے جولائی میں صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے درمیان طے پانے والے نئے معاہدے کو مبینہ 'سفارتی تھیٹر‘ کا ایک نمونہ قرار دیا تھا۔ ایک اور جریدے سیبیرین نیوز کا کہنا ہے کہ امریکا اور عراق کے درمیان طے پائے گئے معاہدے نے کاغذ پر عراق میں متعین امریکی فوجیوں کی حیثیت کو بظاہر تبدیل کر دیا گیا ہے اور حقیقت میں کوئی بھی فوجی واپس طلب نہیں کیا جائے گا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی فوجی جنگی مشنوں میں حصہ لیتے رہیں گے بس ان کی موجودگی کو ایک نیا نام دے دیا گیا ہے۔
امریکی فوج کی ضرورت
لندن کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیتھم ہاؤس سے منسلک ریناد منصور کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عراقی سیاسی رہنما، بشمول وہ جو کھل کر کہہ نہیں سکتے، اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ عراق میں امریکی فوج کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ مشن کی تبدیلی ہے اور یہ امریکی رویے میں تبدیلی نہیں قرار دی جا سکتی۔
اس وقت عراق میں ڈھائی ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان کے علاوہ ساڑھے چار ہزار وزارتِ دفاع کے کنٹریکٹر بھی اس عرب ملک میں ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے ممالک کے ایک ہزار فوجی ہیں اور ان میں ایک سو تیس جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔
امریکا نے قدیمی عراقی ثقافت کا نایاب نمونہ واپس کر دیا
چیتھم ہاؤس کے ریسرچر ریناد منصور کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی موجودگی دوسرے یورپی ممالک کے لیے ایک چھتری ہے اور اگر امریکا نکل جاتا ہے تو اس کی تقلید میں جرمنی بھی لامحالہ پیچھے ہٹ جائے گا۔
اقتصادی بحرانی صورت حال
بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے تجزیہ کار علا الدین کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ سے عراقی لوگ اس کی توقع کرتے ہیں کہ وہ ایک اعتدال پسند رویہ اپنائے گی اور عراق کی سلامتی کے حالات کو بہتر انداز میں سمجھ پائے گی۔ علا الدین کا مزید کہنا ہے کہ عراق کی داخلی سیاست کا رنگ ڈھنگ واضح طور پر سکیورٹی فضا سے جڑا ہے۔
واشنگٹن میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے امن کے مڈل ایسٹ پروگرام سے وابستہ ریسرچر سرہنگ حما سعید نے جولائی میں تحریر کیا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عراق سارے خطے میں امریکا کا ایک اہم پارٹنر ہے، جو داخلی اور خارجی سیاسی قوتوں کے درمیان توازن کا باعث ہے۔ ایسا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا عراق کے تمام پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ کر نہیں دے سکتا لیکن سب سے گھمبیر مسئلہ عراقی معیشت کی بحالی ہے۔
کیتھرین شائیر (ع ح / ا ا)