امریکا ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرے، عالمی عدالت کا حکم
3 اکتوبر 2018ہالینڈ کے شہر دی ہیگ سے بدھ تین اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ فیصلہ آج اسی ڈچ شہر میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف یا آئی سی جے کی طرف سے سنایا گیا، جس پر عمل درآمد قانونی طور پر لازمی ہوتا ہے۔ تاہم یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ اس عالمی عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے واقعی اس پر عمل بھی کرتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال مئی میں واشنگٹن کے اس ایرانی جوہری معاہدے سے اخراج کا اعلان کر دیا تھا، جس پر تہران اور متعدد عالمی طاقتوں نے دستخط کیے تھے۔ پھر صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف امریکا کی طرف سے سخت پابندیوں کی بحالی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
ایرانی حکومت نے واشنگٹن کے اس فیصلے کے خلاف جولائی میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ اب اس مقدمے میں اپنا ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے اس عدالت نے کہا ہے، ’’امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف شہری ہوا بازی کے لیے ضروری ساز و سامان اور فاضل پرزوں کی فراہمی، اشیائے خوراک اور زرعی مصنوعات، ادویات اور طبی ساز و سامان کی درآمد اور فراہمی سے متعلق جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، واشنگٹن حکومت فوری طور پر ان پابندیوں کو ختم اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی تمام ممکنہ رکاوٹوں کا تدارک کرے۔‘‘
یہ عبوری فیصلہ سناتے ہوئے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سربراہ عبدالقوی احمد یوسف نے کہا کہ یہ حکم ایک ’عبوری اقدام‘ ہے اور عدالت کی طرف سے اس مقدمے میں حتمی فیصلہ سنایا جانا ابھی باقی ہے اور نہ ہی اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ اس تنازعے میں حتمی فیصلہ سنانا اس عدالت کے قانونی دائرہ عمل میں آتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس فیصلے کے بارے میں اپنی نشریات میں ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے ایک ویڈیو فوٹیج دکھاتے ہوئے لکھا: ’’دی ہیگ کی عدالت میں تہران کی واشنگٹن کے خلاف فتح۔‘‘
اس مقدمے کی سماعت کے دوران اگست کے مہینے میں ایران کی طرف سے عدالت سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو ان کی ’غیر قانونی‘ حیثیت کی وجہ سے معطل کیا جائے۔
اس کے برعکس امریکی حکومت کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ایران کے خلاف بحال کردہ یہ پابندیاں قطعی قانونی ہیں اور یہ امریکا کے قومی سلامتی کے مفادات کے تحت بھی جائز ہیں، جنہیں اسی وجہ سے ایران کی طرف سے کسی عالمی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے برعکس دی ہیگ کی عدالت نے اپنے عبوری فیصلے میں یہ بہرحال کہا کہ ان امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں خاص طور پر شہری ہوا بازی کے شعبے کو ممکنہ طور پر سلامتی کے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر اس مقدمے میں عالمی عدالت کی طرف سے حتمی فیصلہ سنائے جانے میں کئی برس بھی لگ سکتے ہیں۔
م م / ا ا / اے پی