1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا سے پھر خلانورد خلا کے سفر پر

5 اگست 2018

اسپیس شٹل پروگرام کے خاتمے کے بعد اب پہلی مرتبہ امریکا سرزمین سے خلانوردوں کو خلا میں پہنچانے کا کام دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ سن 2011 میں امریکا کا اسپیس شٹل پروگرام ختم ہو گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/32eVe
USA Texas - NASA stellt Astronauten für neues Kommerzielles Raumfahrtprojekt
تصویر: picture-alliance/Newscom/B. Ingalls

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے جمعے کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ نو خلانوردوں کو بین الاقوامی خلائی مرکز پہنچا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا خلانوردوں یا سازوسامان کو خلا میں پہنچانے کے لیے گزشتہ سات برسوں سے روس پر تکیہ کر رہا تھا۔

اس صدی کا سب سے طویل چاند گرہن آج

ناسا کا خلائی جہاز ’سورج‘ پر

ایک سو ارب ڈالر کی خلائی رصد گاہ (بین الاقوامی خلائی اسٹیشن) قریب چار سو دو میل کے فاصلے پر زمینی مدار میں سفر پر مامور ہے، تاہم اسپیس شٹل پروگرام کی مدت مکمل ہو جانے کے بعد اس مرکز تک امریکی رسائی کا واحد ذریعہ روس تھا۔

جمعے کے روز ناسا نے اعلان کیا کہ امریکی سرزمین سے انسان بردار مشنز کو بین الاقوامی خلائی مرکز تک پہنچانے کے کام میں نجی کمپنیوں کے راکٹوں کا سہارا لیا جائے گا۔ ناسا کے مطابق اب کارگو اور انسان بردار مشنز کے لیے ایلن مُسک کی اسیپس ایکس اور بوئنگ کمپنی کے راکٹوں کی مدد لی جائے گی، جو امریکی سرزمین سے اڑیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پہلی پرواز اگلے برس متوقع ہے۔

ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جم برائڈن اسٹائن نے جانسن اسپیس سینٹر ہیوسٹن میں اپنے خطاب میں کہا، ’’خلا نے امریکی طرز زندگی پر بھرپور اثر کیا ہے۔ سن 2011 کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا جب ہم امریکی خلانوردوں کو امریکی راکٹوں میں بٹھا کر امریکی سرزمین سے روانہ کریں گے۔‘‘

اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا، ’’ہمارے پاس دنیا کی بہترین تنصیبات ہیں اور ہم نجی اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ پیسے دیں اور انہیں استعمال کریں۔ بہت دلچسپ کام ہو رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا چاند پر زیادہ طویل قیام اور خلا میں زیادہ دور جانے والے انسان بردار مشنز پر غور کر رہا ہے، جس میں مریخ پر انسان کو پہنچانا شامل ہے۔

ع ت، ص ح (روئٹرز)