امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات پر تیار
17 جولائی 2018طالبان ایک عرصے سے کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کو مسترد جبکہ امریکی حکام سے براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ دوسری جانب ابھی تک امریکی موقف يہ رہا ہے کہ وہ صرف کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے کی صورت میں ہی افغان طالبان سے مذاکرات کریں گے۔ تاہم واشنگٹن حکومت کے اس نئے اعلان کو سترہ سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق پیر کے روز نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اصل مقصد یہی ہے کہ ’افغان ٹو افغان‘ مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔
دریں اثناء طالبان نے کہا ہے کہ ان سے ابھی تک کسی امریکی رہنما نے اس حوالے سے رابطہ نہیں کیا۔ قطر میں موجود طالبان کے ایک رہنما نے منگل کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان تک ایسی خبریں میڈیا کے ذریعے ہی پہنچی ہیں۔ سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ واشنگٹن انتظامیہ طالبان سے براہ راست مذاکرات چاہتی ہے۔
’افغانستان میں طالبان تنازعے کا حل، سیاسی مفاہمت سے ہی ممکن‘
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک رہنما کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ہم انتظار میں ہیں کہ وہ ہمیں باقاعدہ مطلع کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے سب سے پہلے طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم اور انہیں بلیک لسٹ سے نکالنا چاہیے۔ اس رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کو قطر میں طالبان آفس کے باقاعدہ افتتاح کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے۔ طالبان کے اس رہنما نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکل جانا چاہیے۔
دریں اثناء امریکی وزارت خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ قریبی مشاورت سے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے نئے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ا ا / ع ص ( اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)