امریکا، مہاجرین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے معاہدے سے الگ
3 دسمبر 2017امریکا مہاجرین اور پناہ گزینوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک معاہدے سے الگ ہو گیا ہے۔ امریکی سفیر کے مطابق مہاجرین اور پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری سے متعلق یہ منصوبہ امریکی پالیسی سے متصادم ہے۔
ستمبر 2016ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران 193 رکن ممالک نے مہاجرین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کو ’’نیویارک ڈیکلریشن فار ریفیوجی اینڈ مائیگرینٹس‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد دنیا بھر میں تارکین وطن کو تعلیم اور روزگار تک رسائی ممکن بنانا ہے۔ تاہم اس معاہدے پر عمل کرنا لازم نہیں تھا۔
گزشتہ روز امریکی مشن نے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو آگاہ کیا کہ ’’نیو یارک ڈیکلریشن میں بیشتر شرائط ایسی ہیں جو امریکا کی مہاجرت کی پالیسی کے برعکس ہیں۔ اسی باعث امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس بین الاقوامی سطح پر حتمی اتفاق رائے حاصل کرنے والے اس معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا، ’’امریکا دنیا بھر میں مہاجرین اور تارکین وطن کی مدد کے لیے تعاون جاری رکھے گا۔ لیکن امریکا کی امیگریشن پالیسی کا فیصلہ صرف اور صرف امریکی شہری ہی کرسکتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ کی مہاجرین سے متعلق سخت ترین پالیسی
امریکی سفیر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم امریکا کے بہترین مفاد میں فیصلہ کریں گے کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کیسے کی جائے اور کس کو امریکا میں داخلے کی اجازت دی جائے‘‘۔ نکی ہیلی کے مطابق، ’’نیو یارک ڈیکلریشن میں طے شدہ عالمی طریقہ کار امریکا کی خودمختاری کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘
پیرس معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا، یورپی کمیشن
امریکی صدر ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکا 'America First' کی پالیسی کے تحت امریکا متعدد دیگر عالمی اداروں اور معاہدوں سے دستبردار ہو چکا ہے۔ ان معاہدوں میں سر فہرست موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے طےپانے والا پیرس معاہدہ بھی شامل ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت اور تعلیم UNESCO سے بھی علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی وجہ اس ادارے کی جانب سے ’اسرائیل کے خلاف جانبدارانہ‘ اقدامات کو قرار دیا گیا تھا۔