امریکا میں انسانی ایمبریو میں پہلی بار تبدیلی
27 جولائی 2017پورٹ لینڈ کی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی (OHSU) جین میں تبدیلی کی ٹیکنالوجی پر تحقیق میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں تیار کی گئی ٹیکنالوجی کا پہلی بار انسانی ایمبریو پر استعمال بھی اسی کے محققین کی جانب سے کیا گیا ہے۔
اس تحقیق کو ایک انقلابی اقدام اس لیے بھی قرار دیا جا رہا ہے، کیوں کہ اس طرح انسانی جین میں موجود خرابیوں کو ابتدا ہی میں درست کیا جا سکے گا اور پیدا ہونے والے بچوں کو جینیاتی بیماریوں سے بچایا جا سکے گا۔ اس تجربے کی اطلاعات ٹیکنالوجی ریویو کی جانب سے سامنے آئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد ایمبریو کو صرف چند روز ہی کے لیے نمو پانے دی گئی۔
یہ بات اہم ہے کہ دنیا کے متعدد ممالک نے ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت انسانی جین میں تبدیلیوں کی اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ’ڈیزائنر بے بی‘ کی تخلیق ایک نادرست عمل ہے۔
او ایچ ایس یو کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس تجربے کے نتائج جلد ہی کسی سائنسی جریدے میں شائع کر دیے جائیں گے۔
یہ تحقیق اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے مرکز برائے ایمریونک سیل اینڈ جین تھراپی کے شعبے کے سربراہ شوخرت میتالیپوف کی قیادت میں ایک ٹیم جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو سی آر آئی ایس پی آر کا نام دیا گیا ہے اور اس کے تحت جین میں نہایت تیزی اور فعالیت کے ساتھ تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ایک مالیکیولر قینچی کی طرح جینوم میں داخل ہو کر وہاں غیرضروری حصوں کی کانٹ چھانٹ کر دیتی ہے اور انہیں نئے ڈی این اے سے تبدیل کر دیتی ہے۔
چینی سائنس دانوں نے بھی ایسے ہی تجربے کے بعد اپنی تحقیق شائع کی تھی۔ پیش رفت کے اعتبار سے اس تجربے کے نتائج ملے جلے تھے۔