1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں خودکار ہتھیاروں پر کنٹرول کی بڑی کوشش

17 جنوری 2013

امریکی صدر باراک اوباما نے بالآخر ملک میں مہلک خودکار ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے، جسے ہتھیار بیچنے والی بااثر امریکی لابی کے ساتھ محاذ آرائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/17LOX
تصویر: Reuters

امریکا میں حال ہی میں کئی ایسے ہلاکت خیز واقعات رونما ہوئے، جن کے بعد خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے مطالبات زور پکڑ گئے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ برس 14 دسمبر کو پیش آیا تھا، جب ریاست کنیٹیکٹ کے علاقے نیو ٹاؤن میں ایک اسکول کے اندر ایک حملہ آور نے فائرنگ کر کے 20 بچوں سمیت مجموعی طور پر 26 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ باراک اوباما نے گزشتہ روز اپنے صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایسے 23 اقدامات کی منظوری دے دی، جن کا مقصد ان ہتھیاروں کے ذریعے پھیلنے والے تشدد کو روکنا بتایا گیا ہے۔

امریکی صدر نے کانگریس کو متنبہ کیا ہےکہ وہ ان اقدامات کو روکنے کی کوشش کر کے عوام کے غیض و غضب کو دعوت نہ دے۔ امریکا میں ہر سال اوسطاﹰ 11 ہزار سے زائد افراد خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں نائب صدر جو بائیڈن اور نیو ٹاؤن کے واقعے کے متاثرین کے اہل خانہ کے سامنے ان اقدامات پر دستخط کرنے کے بعد اوباما نے کہا، ’’ہم اس معاملے کو مزید التوا میں نہیں ڈال سکتے، میں وہ سب کچھ اس (قانون) میں ڈال دوں گا، جو میرے پاس ہے۔‘‘

Waffenverkäufer in den USA
امریکا میں ذاتی اسلحہ رکھنے کا رواج خاصا عام ہےتصویر: picture-alliance/dpa

’کام مشکل لیکن ضروری‘

امریکا میں گن کنٹرول سے متعلق اس قانون جیسے کسی دوسرے قانون کی گزشتہ کئی دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ صدر باراک اوباما نے قانون ساز شخصیات پر زور دیا ہے کہ وہ ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق قانون میں دیرپا اصلاحات متعارف کرائیں، بشمول مہلک ہتھیاروں پر پابندی کو برقرار رکھنے اور ہتھیاروں کے خریداروں سے متعلق معلومات کے حصول کو ممکن بنانے کے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا میں چھوٹے خودکار ہتھیاروں کے 40 فیصد خریداروں سے متعلق معلومات حاصل ہی نہیں کی جاتیں اور انہیں یہ مہلک ہتھیار محض قیمت وصول کر کے تھما دیے جاتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا، ’’یہ ایک مشکل کام ہوگا، ایسے پنڈت، سیاستدان اور مخصوص لابی سے متعلق لوگ ان اقدامات کو آزادی پر حملے سے تعبیر کریں گے، پردے کے پیچھے یہ لوگ وہ سب کچھ کریں گے، جس سے اصلا‌حات کو روکا جا سکے اور یہ باور کر لیا جائے کہ کچھ بھی نہ بدلے۔‘‘ باراک اوباما نے واضح کیا کہ وہ بالکل بھی ہتھیار رکھنے کے خلاف نہیں، جس کی امریکی آئین اجازت دیتا ہے۔

Trauer Newtown Attentat Schule
نیو ٹاؤن کے اسکول میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ عقیدت کے اظہار کے لیے شہریوں نے اسکول کی عمارت کے پاس پھول رکھے ہوئے ہیںتصویر: Reuters

امریکی اسلحہ سازوں کی بااثر نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ ان اقدامات سے محض وہ لوگ متاثر ہوں گے، جنہوں نے قانونی طور پر ہتھیار رکھے ہوئے ہیں اور نیو ٹاؤن جیسے واقعات پھر رونما ہو سکتے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ہیری ریڈ نے صدر کے اعلان کردہ اقدامات کو ’پر مغز‘ تجاویز کا نام دیا اور مزید تبصرہ نہیں کیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہتھیار خریدنے والوں کے پس منظر سے متعلق معلومات کے حصول کی تجویز کو کانگریس میں بھرپور حمایت حاصل ہو سکتی ہے تاہم ہتھیار رکھنے پر پابندی کے لیے حمایت کا حصول مشکل کام ہو گا۔ اس ضمن میں خود باراک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ایسے ارکان مخالفت کر سکتے ہیں جو قدامت پسندانہ نظریات کی حامل ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ریپبلکن سیاستدانوں کی بڑی اکثریت ویسے ہی اس تجویز کی مخالف ہے۔

(sks / mm (AFP