امریکا میں لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن جاری
22 فروری 2017امریکا میں مقیم قریب گیارہ ملین تارکین وطن ایسے ہیں، جن کے پاس امریکا میں قانونی طور پر سکونت کے دستاویزات نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ نئے اقدامات کے بعد امریکا میں تارکین وطن برادریوں میں خوف کی لہر پھیل گئی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکا میں مقیم ان افراد نے یہاں اپنے گھرانے بنا لیے ہیں اور جب کہ زندگی گزارنے کے لیے بھی ان کا واحد تکیہ اب یہی ملک ہے۔ غیرقانونی تارکین وطن میں سے زیادہ تر کا تعلق وسطیٰ امریکا اور میکسیکو سے ہے، گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ یہ تارکین وطن ملک بدری کے سنجیدہ خطرے سے دوچار ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ’قربانی کا بکرا‘ تلاش کرنے کے مترادف ہیں اور اس طرح کی بڑی ملک بدریاں، کئی ایسے خاندانوں کو جدا کر دیں گی، جن کی جڑیں امریکا میں قائم ہو چکی ہیں جب کہ اس سے امریکی اقتصادیات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
تاہم امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے کے سیکرٹری جان کیلی، جنہوں نے دو ہدایات نامے جاری کیے ہیں، ان اقدامات کو حکومتی وسائل پر غیرضروری دباؤ سے نجات کا اہم راستہ قرار دیتے ہیں۔ ’’ملک میں غیرقانونی تارکین وطن اور جنوبی سرحد کی نگرانی کے لیے وفاقی اداروں کی تعیناتی سے حکومتی وسائل کا بے انتہا استعمال ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے امریکا کی قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔‘‘
دوسری جانب امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ڈیموکریٹ رکن سینیٹر بین کارڈن نے ان اقدامات کو ملکی قومی سلامتی اور عوام کے لیے خطرات پیدا کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
نیویارک کے میئر بل ڈے بلاسیو نے کہا ہےکہ انہوں نے اپنے شہر کے پولیس افسران کو امیگریشن ایجنٹ بننے سے روک دیا ہے اور نہ ہی وہ شہر کی جیلوں کو ملک بدری کی پالیسیوں پر عمل درآمد کی آماج گاہوں میں تبدیل ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے تمام کمیونیٹیز کے لیے اپنے دروازے کھول کر نیویارک کو ملک کا سب سے محفوظ شہر بنایا اور وہ اس درجے کو کسی صورت کھونے کو تیار نہیں۔