امریکا نے شام میں جہادیوں پر حملے شروع کر دیے
23 ستمبر 2014پینٹا گون کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کربی نے ایک بیان میں کہا ہے: ’’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ امریکی فوج اور اتحادی ملکوں کی فورسز شام میں آئی ایس آئی ایل کے دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی کر رہی ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے بتایا کہ اس آپریشن میں جہادیوں کے خلاف فائٹر، بمبار اور ٹام ہاک لینڈ اٹیک میزائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
کربی نے بتایا کہ ان فضائی کارروائیوں کا فیصلہ پیر کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لایوڈ آسٹن نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جنرل آسٹن نے فیصلہ کمانڈر اِن چیف کی جانب سے دیے گئے اختیار کے تحت کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے بارے میں مزید تفصیلات بعد میں دی جائیں گی۔ یہ کارروائیاں سمندر میں موجود بحری بیڑوں سے کی گئیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے دس ستمبر کو ایک خطاب میں خبردار کیا تھا کہ امریکا شام میں جہادیوں پر حملے کے لیے تیار ہے۔ اوباما کا کہنا تھا: ’’میں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم ان دہشت گردوں کو شکار کریں گے جو ہمارے ملک کے خطرہ ہیں، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا تھا: ’’یہ میری صدارت کا بنیادی اصول ہے: اگر تم امریکا کے لیے خطرہ ہوتو تمھیں کوئی محفوظ جگہ نصیب نہیں ہو گی۔‘‘
واشنگٹن انتظامیہ نے عراق میں ان جہادیوں پر فضائی حملے آٹھ اگست کو شروع کیے تھے۔ وہاں ایک سو نوّے حملے کیے جا چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس نے اوباما کے ایک منصوبے کی توثیق کی تھی جس کا مقصد شام کے روشن خیال باغیوں کو تربیت دینا اور ہتھیار فراہم کرنا ہے تاکہ وہ جہادیوں سے لڑ سکیں۔
شام میں اسلامی اسٹیٹ کے شدت پسندوں کی جانب سے امریکی صحافی جیمز فولی کے قتل کے بعد جہادیوں کے بارے میں واشنگٹن انتظامیہ کا سخت مؤقف آنا شروع ہوا۔
خود ساختہ اسلامی ریاست چلانے والے شدت پسند گروہ نے حالیہ دِنوں میں عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ گزشتہ ماہ شامی صدر بشار الاسد نے شدت پسندوں پر قابو پانے کے لیے واشنگٹن سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ تاہم امریکی حکام نے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے دمشق حکومت کے ساتھ تعاون کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔