امریکا نے شامی سفارت خانے کی سرگرمیاں معطّل کرنے کا حکم دے دیا
19 مارچ 2014وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے منگل کے روز کہا کہ شامی سفارت خانے کے اُن تمام ملازمین کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے، جن کے پاس امریکا میں قیام کا اجازت نامہ نہیں ہے۔ کارنی کے بقول شامی صدر بشارالاسد کی جانب سے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا ہے۔ کارنی نے مزید کہا کہ یہ بات نا قابل قبول ہے کہ سفارتی عملے کا انتخاب بھی ظلم و زیادتی میں ملوث حکومت ہی کرے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے فیصلے کے بعد واشنگٹن میں شامی سفارت خانے کا عملہ امریکا میں سفارتی درجہ کھو چکا ہے۔ ان کے بقول اس فیصلے کا اطلاق سفارت خانے کے درجن کے قریب افراد پر ہوگا۔ ساکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ شامی سفارتی عملے کے اہل خانہ کو اکتیس مارچ تک جب کہ خود عملے کو تیس اپریل تک ملک چھوڑنا ہوگا۔۔
امریکا نے ان خبروں کو یک سر بے بنیاد قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام نے شامی سفارتی عملے کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ ساکی کے بقول، ’’اختلافات کے باوجود ہم نے بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شامی سفارتی عملے کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا۔‘‘
شام میں جاری بحران کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد ہلاک اور تقریباً بیس لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔گزشتہ برس اگست کے مہینے میں شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد یہ تنازعہ ایک خطرناک رخ اختیار کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کار کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق کر چکے ہیں تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہتھیار شامی حکومت نے استعمال کیے تھے یا پھر اسد حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں نے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کا مؤقف ہے کہ یہ ہتھیار شامی حکومت کی جانب سے استعمال کیے گئے تھے۔ اسد حکومت اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی مکمل تفصیلات اقوام متحدہ کے سامنے رکھنے پر آمادگی ظاہر کر چکی ہے۔
روس اور امریکا کے درمیان ایک معاہدے کے بعد شام کا تنازعہ طے ہونے کے نزدیک دکھائی دے رہا تھا تاہم حال ہی میں یوکرائن میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد روس اور امریکا کے تعلقات انتہائی خراب ہو چکے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے شام کے تنازعے کے حل کے سلسلے میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔