امریکا کا قطر کو غیر نیٹو اتحادی بنانے کا فیصلہ
1 فروری 2022امریکی صدر جو بائیڈن اور قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے درمیان پیر کے روز وائٹ ہاوس کے اوول آفس میں ملاقات ہوئی۔ بائیڈن نے کہا کہ وہ واشنگٹن اور دوحہ کے درمیان شراکت کو مزید وسعت دیتے ہوئے قطر کو غیر نیٹو اتحادی کے طور پر نامزد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی کانگریس کو جلد ہی اس حوالے سے مطلع کریں گے۔
گو کہ غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا جانا بڑی حد تک علامتی نوعیت کا ہے تاہم یہ قطر کی جانب سے اس تعاون کے لیے واشنگٹن کی ممنونیت کا اظہار بھی ہے جو اس نے فغانستان سے امریکا کے انخلاء نیز گزشتہ برس غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کو ختم کرانے میں کیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اوول آفس میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، "قطر اچھا دوست اور قابل بھروسہ اور قابل شراکت دار ہے اور میں کانگریس کو مطلع کر رہا ہوں کہ میں قطر کو اہم غیر نیٹو اتحادی کے طور پر نامزد کروں گا تاکہ اپنے تعلقات کی اہمیت کی عکاسی ہو سکے۔ میرا خیال ہے کہ یہ کافی عرصے سے زیر التوا ہے۔''
غیر نیٹو اتحادی کے درجے کی اہمیت
قطر خلیجی ملکوں میں کویت کے بعد امریکا کا بڑا غیر نیٹو اتحادی بننے والا دوسرا ملک بن گیا ہے۔ جب کہ مجموعی طور پر یہ درجہ حاصل کرنے والا اٹھارہواں ملک ہوگا۔ آخری ملک برازیل تھا جس کو 2019 میں غیر نیٹو اتحادی بنایا گیا تھا۔ یہ درجہ امریکا کی طرف سے قریبی غیر نیٹو اتحادیوں کو دیا جاتا ہے جن کے امریکی فوج کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات ہیں۔
غیر نیٹو اتحادی کا درجہ مل جانے کے بعد دو حہ کو واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے خصوصی اقتصادی اور فوجی مراعات مل جائیں گی۔
صدر بائیڈن کے اعلان کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا، "بڑے غیر نیٹو اتحادی کا درجہ امریکا کے ساتھ ان ملکوں کے قریبی تعلقات کی ایک طاقتور علامت ہے جو ہمار ے دیگر نیٹو اتحادیوں کے ساتھ دوستی اور احترام کا اظہار کرتے ہیں۔"
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اس موقع پر کہا، "ہمیں ان عظیم تعلقات پر فخر اور خوشی ہے۔ ہم اپنے خطے میں امن قائم رکھنے کے طریقے اور ذرائع تلاش کرنے کے لیے مل کر کام جاری رکھیں گے۔"
قطری امیر کے دورے کی اہمیت
شیخ تمیم کا یہ دورہ جنوری 2021 میں بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد امریکا کا پہلا دورہ ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب مشرقی یورپ کا سفارتی اور فوجی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ روس یوکرائن پر فوجی حملہ کرسکتا ہے، حالانکہ روس نے اس طرح کے حملے کے امکانات کی تردید کی ہے۔
وائٹ ہاوس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بائیڈن قطری امیر کے ساتھ عالمی توانائی سپلائی کے استحکام کو یقینی بنانے پر بات کریں گے۔
قطر دنیا بھر کو سب زیادہ قدرتی مائع گیس فراہم کرتا ہے اور اگر یوکرائن کے تنازعے نے یورپ کو روسی گیس کی ترسیل میں تعطل پیدا کیا تو دوحہ اپنی سپلائی کا رخ یورپ کی طرف موڑ سکتا ہے۔ یورپ اپنی توانائی کی سپلائی کے لیے بڑی حد تک روس پر منحصر ہے۔ لیکن اگر روس نے حملہ کیا توماسکو کو پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صدر بائیڈن نے پیر کے روز قطر کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو امریکی مفادات کے لیے اہم قرار دیا۔ انہوں نے طالبان کے ساتھ امریکی جنگ کے خاتمے کے دوران ہزاروں امریکی شہریوں اور افغانوں کے انخلا میں مدد کرنے پر قطر کی تعریف کی۔ امریکی صدر نے غزہ میں استحکام برقرار رکھنے اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے بھی قطر کے کردار کی تعریف کی۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی صدر اور امیر قطر نے ملاقات میں مشرق وسطیٰ کی سیکورٹی اور افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا جہاں گذشتہ سال امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے انسانی بحران کا خدشہ ہے۔
قطری امیر نے امریکی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے ساتھ بھی الگ الگ ملاقات کر کے اسلحہ کے فروخت اور دیگر فوجی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ رہنماؤں نے 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی امریکی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
امریکی اور قطری رہنماوں کی ملاقات کے بعد قطر کے وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کہا ہے کہ ان کا ملک واشنگٹن اور تہران کے نقطہ نظر کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے اپنے کھلے روابط کا استعمال کر رہا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)