امریکا کی عالمی طاقت کے زوال میں القاعدہ کا کردار
11 ستمبر 2018خارجہ پالیسی کے عمل میں شامل فکری اشرافیہ میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سابق صدر جارج بش کی انتظامیہ نے گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ اس وقت کی امریکی انتظامیہ میں حامیوں کے طور پر نئے قدامت پسندوں یعنی نیو کنزرویٹیوز کا اثر و رسوخ تھا جن میں نائب صدر ڈک چینی، پینٹاگون کے سربراہ ڈونلڈ رمزفیلڈ اور ان کے بیشتر ساتھی شامل تھے۔ ابھی لوئر مین ہٹن میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ نئے قدامت پسندوں نے صدر بش کی خارجہ پالیسی پر قبضہ جما لیا اور اسے ایک ایسی انتہاپسند راہ پر لے کر چل پڑے جس کا مقصد نہ صرف وسیع تر مشرق وسطٰی میں امریکی غلبے کو مستحکم کرنا تھا بلکہ عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھنے والے ملکوں اور علاقائی حریف طاقتوں کو بھی ان کے عزائم سے باز رکھنا تھا۔
نئے قدامت پسندوں نے چار برس قبل ’پروجیکٹ فار نیو امریکن سینچری‘ نامی تھنک ٹینک میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس تھنک ٹینک کے بانیوں میں ولیم کرسٹل اور روبرٹ کیگن جیسے نظریہ ساز شامل تھے جنہوں نے بہت پہلے سے امریکا پر زور دینا شروع کر دیا تھا کہ وہ جب تک ممکن ہو، دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھے۔
انہوں نے مختلف خطوط اور مضامین کے ذریعے زیادہ فوجی اخراجات، ممکنہ خطرات کے خلاف پیشگی اور ضرورت کے مطابق یکطرفہ فوجی کارروائی اور امریکا کے نزدیک ناپسندیدہ ملکوں کی حکومتوں کو بزور طاقت تبدیل کرنے کے نظریات کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔
گیارہ ستمبر کے بعد دنیا بھر میں امریکا کے ساتھ ہمدردی اور عوام کے اتحاد نے انہیں اپنے عزائم کو عملی شکل دینے کا موقع فراہم کر دیا۔ چنانچہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور افغانستان کی تعمیرنو کی بجائے بش انتظامیہ نے عراق کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ 2003ء میں عراق کے خلاف جنگ کو امریکی خارجہ پالیسی کا انتہائی تباہ کن فیصلہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف واشنگٹن کو حاصل بین الاقوامی حمایت اور یکجہتی ختم ہو گئی بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ امریکا کی جنگ اسلام کے خلاف ہے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عراق پر حملہ کرنے سے امریکا اسامہ بن لادن کے پھینکے ہوئے اس جال میں پھنس گیا، جس کا مقصد اسے جنگوں میں الجھا کر اس کی طاقت کمزور کرنا تھا۔ اسامہ بن لادن کو یقین تھا کہ جس طرح افغانستان میں جنگ کے بعد سابق سوویت یونین کمزور ہو گیا تھا، اسی طرح امریکا کو بھی الجھا کر کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اپنے 2004ء کے ایک آڈیو پیغام میں اسامہ بن لادن نے کہا تھا، ’’ہم امریکا کو اتنا لہولہان کر دیں گے کہ وہ دیوالیہ ہو کر رہ جائے گا۔ ہمارا کام بس اتنا ہے کہ کسی بھی جگہ ایک کپڑا لہرا کر اس پر القاعدہ لکھ دیں اور فوجی جنرل فوراﹰ ہی وہاں دوڑ پڑیں گے اور اس کے نتیجے میں امریکا کا جانی، مالی اور سیاسی نقصان ہوتا رہے گا۔‘‘
امریکہ کو جنگیں 3.7 ٹریلین ڈالرز میں پڑیں، رپورٹ
بن لادن کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور عراق، افغانستان کی جنگوں اور یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ڈرون حملوں سے اس کے فوجی اخراجات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان جگہوں پر لڑائی کے دوران شہریوں کی ہلاکت اور امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک سے واشنگٹن کی اخلاقی ساکھ بھی پامال ہوئی۔
واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اب تک کئی ٹریلین ڈالر سے زائد اخراجات برداشت کر چکا ہے اور اس رقم کا امریکا کے مالیاتی بحران میں قابل ذکر حصہ ہے۔ اگرچہ امریکا کی فوج اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ہے لیکن جس کامیابی سے دنیا کے غیر منظم گوریلا گروپوں نے اسے چوٹ لگائی ہے، اس سے بتدریج دنیا میں امریکا کی طاقت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
بش کے دور میں قومی سلامتی کے اعلٰی عہدیدار رچرڈ کلارک نے لکھا تھا، ’’ہم اپنے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے، جنہوں نے جان بوجھ کر ایسی کارروائیاں کیں کہ ہم ان کا جواب ان کے اندازوں کے مطابق دیں، جس سے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور مشرق وسطٰی میں ہمارے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔‘‘