1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کی مشرق وسطیٰ پالیسی، سعودی عرب کا اظہارِ ناراضی

عابد حسین23 اکتوبر 2013

امریکی صدر باراک اوباما کی ایران اور شام بارے پالیسیوں پر سعودی عرب کے حکمران خاندان نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ان افراد نے امریکا کے ساتھ تعلقات میں اختلافات کا اشارہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1A4ty
تصویر: Jacquelin Martin/AFP/Getty Images

سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے چیف پرنس بندر بن سلطان نے عندیہ دیا ہے کہ امریکا کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں واضح تبدیلی کا امکان ہے۔ تبدیلی کا اشارہ شام کے حالات کے تناظر میں امریکی اقدامات اور ایران کے ساتھ پیدا ہونے والے حالیہ رابطوں کی مناسبت سے سامنے آیا ہے۔ سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ پرنس بندر بن سلطان نے یورپی سفارتکاروں پر واضح کیا کہ امریکا، شامی صدر بشار الاسد کے خلاف عملی اقدامات سے قاصر رہنے کے علاوہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں بھی اثر و رسوخ استعمال نہیں کر پایا اور اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ واشنگٹن کا جھکاؤ تہران کی جانب ہو رہا ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے یورپی سفارتکاروں کے ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سعودی حکمران خاندان کے افراد بحرین کے معاملے پر بھی سعودی عرب کے موقف کو امریکی حمایت حاصل نہ ہونے پر خفا ہیں۔ ذرائع کے خیال میں اگر سعودی عرب کی امریکا بارے پالیسی تبدیلی ہوتی ہے تو یہ عرب جزیرہ نما میں بہت ہی اہم ہونے کے علاوہ اس کا امکان ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب اب مزید کسی بڑی طاقت کا دست نگر رہنا نہیں چاہتا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پرنس بندر بن سلطان کے بیان کو شاہ عبداللہ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ پرنس بندر 22 برس تک امریکا میں سعودی سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں سن 2012 میں شاہ عبداللہ نے سعودی انٹیلیجنس ادارے کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا تھا۔

John Kerry in Amman
امریکی وزیر خارجہ نے ریاض حکومت کے تحفظات کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے ساتھ حالیہ ملاقات میں ڈسکس کیاتصویر: picture alliance / dpa

امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں دراڑ کا اندازہ ایک اور سعودی شہزادے کے واشنگٹن میں دیے گئے بیان سے ہوتا ہے۔پرنس ترکی الفیصل کا کہنا ہے کہ شام بارے اوباما حکومت کی پالیسیاں قابل افسوس ہیں۔ ترکی الفیصل نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی امریکی روسی ڈیل کو اوباما حکومت کا شام میں فوجی ایکشن سے ہٹنے کی حکمت عملی قرار دیا۔ پرنس ترکی الفیصل کا مزید کہنا تھا کہ شامی کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی طور پر کنٹرول کرنا اصل میں ایک دکھاوا ہے اور اس باعث امریکی صدر کو شام پر فضائی حملوں سے پیچھے ہٹنے اور بشار الاسد کو اپنی عوام کا مزید قتل عام کرنے کا موقع ملا ہے۔

امریکی پالیسیوں کے بارے میں سعودی حکومت کی ناراضی کو گزشتہ ہفتے کے دوران اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں غیر مستقل رکن کی نشست کو قبول کرنے سے انکار کو خیال کیا گیا ہے۔ سکیورٹی کونسل میں نشست کو قبول نہ کرنے کے فیصلے کو پرنس ترکی الفیصل نے حتمی قرار دیا ہے۔ ترکی الفیصل نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں نیشنل کونسل برائے امریکا عرب تعلقات میں کیا۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ریاض حکومت کے تحفظات کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل کے ساتھ لندن میں ہونے والی ملاقات کے دوران گفتگو کا حصہ بنایا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے بھی سعودی تحفظات کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاض حکومت نے امریکہ کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا۔