امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کا تازہ دور آج سے شروع، طالبان
1 مئی 2019افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ کا پر امن حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ امریکا کی کسی دوسرے ملک میں اب تک کی طویل ترین فوجی مہم ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو آج بدھ یکم مئی کو بتایا کہ یہ مذاکرات گزشتہ برس زلمے خیل زاد کو امریکی نمائندہ خصوصی مقرر کیے جانے کے بعد سے ان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا چھٹا دور ہیں۔ مجاہد کے مطابق ان مذاکرات میں خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان کی طرف سے اس بات کی گارنٹی دیے جانے پر توجہ رہے گی کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغان سرزمین کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر نہیں استعمال کیا جائے گا۔ خلیل زاد قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں ایک ابتدائی معاہدے کا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا ہے۔
زلمے خلیل زاد جو منگل 30 اپریل کو اسلام آباد میں تھے، علاقے کے مختلف ممالک کے دورے پر تھے جس کا مقصد افغان حکومت اور اس کے ہمسایوں کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے ایک پر امن حل پر سب کو متفق کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خلیل زاد اس ملاقات میں امریکی نمائندوں کی اس ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں جو گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے کئی ادوار میں شریک رہے ہیں۔
خلیل زاد کے ساتھ کام کرنے والے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ مذاکرات کے تازہ دور میں طالبان کو ایک بار پھر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں۔ طالبان اب تک افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو ایک کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
ا ب ا / ع س (ایسوسی ایٹڈ پریس، روئٹرز)