امریکا،اسرائیل کے ساتھ امارات اور بحرین کی مشترکہ بحری مشق
12 نومبر 2021خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسرائیلی بحریہ کے ایک افسر نے مذکورہ فوجی مشق کے بارے میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی سربراہی میں اس طرح کے فوجی تعاون سے خطے میں ایران کے "طاقت کے مظاہرے" کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے گزشتہ برس امریکا کی ثالثی میں کیے گئے " ابراہیمی معاہدے" کے تحت اسرائیل کے ساتھ اپنے معمول کے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ یہ معاہدے ایران کی جانب سے لاحق مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے اور اقتصادی فوائد کے حصول کی امید میں کیے گئے تھے۔
امریکا کا بیان
ایران اور بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان ویانا میں 29 نومبر کو جوہری مذاکرات شروع ہونے والے ہیں جس میں سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ ناکامی کی صورت میں علاقائی کشیدگی میں شدید اضافہ ہونے کا خطرہ ہے۔
امریکا کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پانچ روزہ جنگی مشق کے دوران یو ایس ایس پورٹ لینڈ جنگی جہاز پر تربیت شامل ہے جس سے "شریک فورسز کے درمیان بحری سیکورٹی کے حوالے سے باہمی تعاون کو بہتر بنانے" میں مدد ملے گی۔
امریکی بحری فورسز سنٹرل کمان (نیوسینٹ) اور'کمبائنڈ میری ٹائم فورسز' کے کمانڈر وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے بتایا، "بحری اشتراک سے سمندروں میں نیوی گیشن کی آزادی کی حفاظت کرنے اور تجارت کے آزادانہ بہاو کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے، جو علاقائی سیکورٹی اور استحکام کے لیے لازمی ہیں۔"
اصل مقصد ایران کا مقابلہ
اسرائیلی بحریہ کے افسر، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے، نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جولائی میں ہونے والے ایک حملے کا ذکرکیا جس کے لیے عالمی طاقتوں اور اسرائیل نے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ عمان کے ساحل سے قریب تجارتی جہاز پر ہونے والے حملے میں اس پر سوار دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ جہاز ایک اسرائیلی کمپنی کے زیر انتظا م تھا۔
ایران نے اس حملے میں کسی طرح سے ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی تھی۔
اسرائیلی افسر کا کہنا تھا کہ اس مشق سے "بحر احمر میں تعاون اور تحفظ میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن اس سے صرف بحر احمر میں ہی مدد نہیں ملے گی کیونکہ ہم ایرانی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔"
ج ا / ص ز (روئٹرز)