امریکہ اور روس کے مابین قیدیوں کا تاریخی تبادلہ مکمل
2 اگست 2024رہائی پانے والوں میں شامل وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ایوان گیرشکووچ، سابق امریکی میرین پال وہیلن اور صحافی السو کرماشیوا جب امریکہ کے اینڈریوز فوجی ایئر بیس پر اترے تو امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس ان کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔
ان تینوں کے خاندان اور دوستوں نے ان کا استقبال کیا اور بائیڈن اور ہیرس نے انہیں گلے لگایا۔ رہائی پانے والے چوتھے قیدی کارا مراز ہیں، لیکن وہ علیحدہ طورپر امریکہ واپس آرہے ہیں۔
امریکہ اور روس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ
امریکہ اور روس کے درمیان جاسوسوں کا تبادلہ
صدر بائیڈن نے ہوائی اڈے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا،"ان کی وحشیانہ آزمائش ختم ہوگئی ہے۔"
خیال رہے کہ جمعرات کے روز ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے ہوائی اڈے پرکثیر ملکی قیدیو ں کے ڈرامائی تبادلے میں روس میں قید سولہ مغربی باشندوں کے بدلے میں دو نابالغ سمیت مجموعی طورپر دس روسیوں کا تبادلہ کیا گیا۔
جو بائیڈن نے مزید کہا،"اس طرح کے سودے طے کرنے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔ لیکن میرے لیے امریکیوں کی، اندرون اور بیرون ملک، حفاظت سے اہم کوئی چیز نہیں ہے۔ "
امریکہ سے 10 روسی جاسوس ماسکو روانہ
پوٹن کا امریکہ کو سرد جنگ کی طرز کے میزائل بحران کا انتباہ
ادھر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی قید سے رہا ہونے والے روسی شہریوں کا ماسکو میں ہوائی اڈے پر خیرمقدم کیا۔
چھبیس قیدیوں کی رہائی
امریکہ نے مجموعی طور پر، امریکہ، جرمنی، پولینڈ، ناروے اور سلووینیا میں قید دس روسیوں کے بدلے میں 16 افراد کی رہائی حاصل کی، جن میں غلط طریقے سے گرفتار کئے گئے پانچ جرمن اور سات روسی شہری شامل ہیں۔ یہ سرد جنگ کے بعد سے امریکہ اور روس کے درمیان قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہے۔
بائیڈن نے امریکی اور روس مخالفین کو آزاد کرانے کے لیے "بہادر اور جرأت مندانہ فیصلے " کرنے پر امریکہ کے اتحادیوں کی تعریف کی اور اسے سفارت کاری کی کامیابی قرار دیا۔
بائیڈن نے کہا کہ جرمنی، پولینڈ، سلووینیا، ناروے اور ترکی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ''انہوں نے جرات مندانہ فیصلے کیے، اور اپنے ملکوں میں رکھے جانے والے قیدیوں کو رہا کیا، اور امریکیوں کو وطن پہنچانے کے لیے لاجسٹک مدد فراہم کی۔''
یوکرین پر روسی حملہ، کیا ’سرد جنگ دوم‘ کا آغاز ہو چکا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ ''ان میں سے کچھ خواتین اور مردوں کو کئی برسوں سے غیر منصفانہ طور پر حراست میں رکھا گیا۔ سب نے ناقابل تصور مصائب اور غیر یقینی صورتحال کو برداشت کیا ہے۔ آج، ان کی اذیت ختم ہو گئی ہے۔''
قیدیوں کے تبادلے میں جرمنی کا اہم کردار
قیدیوں کے تبادلے کا یہ فیصلہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان مہنیوں تک چلنے والی بات چیت کے بعد ہوا۔ جرمنی نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔
جن روسی قیدیوں کو رہا کیا گیا ان میں وادیم کراسیکوف شامل ہیں، جنہیں جرمنی میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ وہ سن 2019میں برلن میں ایک سابق چیچین عسکریت پسند کو قتل کرنے کے جرم میں جرمنی کی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کراسیکوف کو رہا کرانے کی ذاتی طورپر کوششیں کی تھیں۔ پوٹن نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کراسیکوف کی رہائی کے بدلے وہ قیدیوں کے تبادلے پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ تبادلہ مشکل تھا لیکن اس سے زندگیاں بچ گئیں۔ شولس نے کولون ہوائی اڈے پر قیدیوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کئی"اپنی صحت اور اپنی جان کے حوالے سے خوفزہ تھے۔"
ادھرروس کے ایک سابق صدر میدویدیف نے ان روسیوں کی رہائی کا خیرمقدم کیا جنہوں نے سرد جنگ کے بعد "فادرلینڈ" کے لیے کام کیا تھا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)