امریکہ ایران مخالف پابندیوں کی کوشش جاری رکھے گا
20 مئی 2010وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر نے ترک وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا۔ اوباما نے ترکی اور برازیل کی ان کوششوں کو سراہا، جن کے تحت ایران نے ترکی میں اپنی افزودہ یورینیم کے نصف ذخائر کو جوہری ایندھن سے بدلنے کا معاہدہ کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر نے ایران کے مجموعی جوہری پروگرام سے جڑے بین الاقوامی برادری کے مسلسل اور بنیادی خدشات کو اجاگرکیا۔ اوباما کے بقول ایران کا یورینیم کی افزودگی جاری رکھنا اور یورینیم کی بیرون ملک منتقلی سے متلعق P5+1 کی تجویز نہ ماننے سے بھروسے کی فضا قائم نہیں ہوتی۔ P5 سے مراد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین جبکہ +1 سے مراد جرمنی ہے۔
دوسری جانب ترک وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایردوآن نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹین سے بھی ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ ایردوآن نے ایران کے تنازعے کے سفارتی حل پر زور دیا ہے۔ بیان کے مطابق روسی وزیر اعظم نے کہا کہ برازیل اور ترکی کی مصالحتی کوششوں نے نئے امکانات پیدا کر دئے ہیں۔
دوسری جانب برازیل اور ترکی نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف سخت پابندیوں سے اجتناب کیا جائے۔ سلامتی کونسل کو بھیجے گئے ایک خط میں دونوں ممالک نے امریکہ کی اس مجوزہ قرار داد کے مسودے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس میں نئی ایران مخالف پابندیوں کا ذکر ہے۔
ایران نے بھی اس قرارداد کے مسودے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اول تو یہ قرارداد منظور نہیں ہوگی اور اگر ہو بھی گئی تو اس کا ایران کی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان جس مسودے پر متفق ہوئے ہیں، اس کے مطابق ایران کے بینکوں کو پابندیوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام کے لئے سامان لے جانے والے مال بردار بحری جہازوں کی جامع جانچ کی بات بھی کی گئی ہے۔ ان نئی ممکنہ تہران مخالف پابندیوں کو امریکی صدر باراک اوباما کے سخت بیانات کے مقابلے میں انتہائی معتدل تصور کیا جا رہا ہے۔ سفارت کاروں کے مطابق روس اور چین کی جانب سے ایران کے خلاف سخت ترین اقصادی پابندیوں کی مخالفت کے سبب ایسا ہوا ہے۔
ایرانی حکام کو یقین ہے کہ یہ قرار داد کسی بھی صورت منظور نہیں ہو سکتی۔ تاجکستان میں صحافیوں سے بات چیت میں ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی کا کہنا تھا کہ اس قرار داد کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی