1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکہ میں اسقاط حمل کی گولیاں اب عام ڈرگ سٹورز پر دستیاب

4 جنوری 2023

گزشتہ موسم گرما میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل سے متعلق سن 1973 کے اپنے فیصلے کو کالعدم ٹھہرانے کے متنازعہ فیصلے کے بعد اسقاط حمل کی گولیاں کھلے عام فراہم کرنا کافی اہمیت کا حامل ہے۔

https://p.dw.com/p/4LiMT
Bilder des Jahres 2022 | USA Abtreibungsgesetz Protest
تصویر: ANDREW CABALLERO-REYNOLDS/AFP/Getty Images

امریکہ میں خوراک اور ادویات کے نگراں ادارے 'فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن' (ایف ڈی اے) نے تین جنوری منگل کے روز اپنے اصول و ضوابط میں ایک اہم تبدیلی کا اعلان کیا، جس کے تحت اب دواؤں کی بڑی کمپنیوں سمیت خوردہ فارمیسی کی دوکانوں کو اسقاط حمل کی گولیاں فروخت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

گزشتہ موسم گرما میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے بعد سے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اسقاط حمل سے متعلق زیادہ سے زیادہ حقوق کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی تناظر میں یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

تمام خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے، بھارتی سپریم کورٹ

 بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ برس ہی اس تبدیلی کو جزوی طور پر نافذ کیا تھا، تاہم یہ اعلان بھی کیا تھا کہ شاید وہ اس دیرینہ ضرورت کو اس طرح سے نافذ نہیں کرے گی کہ خواتین بذات خود ایسی دوا حاصل کر سکیں۔

اسقاط حمل تک رسائی کا صدارتی حکم، بائیڈن کی طرف سے دستخطوں کا امکان

تاہم اب ایف ڈی اے کے تازہ فیصلے سے ایسی دواؤں کی لیبلنگ باضابطہ طور پر اپ ڈیٹ ہو سکے گی، تاکہ بہت سی مزید خوردہ فارمیسیوں کو گولیاں فراہم کرنے کی اجازت مل سکے۔ البتہ دوا کی دوکانوں کو سرٹیفیکیشن کا عمل مکمل کرنا ہو گا۔

یہ فیصلہ اتنا اہم کیوں ہے؟

امریکہ میں اسقاط حمل کی گولیاں آسانی سے فراہم کرنا ان خواتین کے لیے ایک اہم متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اپنی مرضی سے اپنا حمل ختم کرنا چاہتی ہیں۔

Washington D.C. Proteste Abtreibung Pro Choice
ایک تحقیقی گروپ، جو اسقاط حمل کے حقوق کی حمایت کرتا ہے، کا اندازہ ہے کہ ملک میں اب نصف سے زیادہ اسقاط حمل سرجری کے بجائے گولیوں کی مدد سے کیے جاتے ہیںتصویر: Yasin Ozturk /AA/picture alliance

ایک تحقیقی گروپ، گٹماشر انسٹی ٹیوٹ، جو اسقاط حمل کے حقوق کی حمایت کرتا ہے، کا اندازہ ہے کہ ملک میں اب نصف سے زیادہ اسقاط حمل سرجری کے بجائے گولیوں کی مدد سے کیے جاتے ہیں۔

اس طریقہ کار میں دو گولیاں شامل ہیں۔ مسوپروسٹل نامی ٹیبلٹ پہلے لینی ہوتی ہے، جو حمل کی نشوونما کو روکنے کا کام کرتی ہے۔ مسفیپرسٹون نامی دوسری گولی اس کے 24 سے 48 گھنٹے کے بعد کھانی ہوتی ہے، جو حمل کے ٹشوز کو نکالنے کا کام کرتی ہے۔

 بعض قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایف ڈی اے کے فیصلے کا زمینی سطح پر بہت کم اثر پڑے گا، کیونکہ متعدد ریاستوں کے قوانین خواتین کی گولیوں تک رسائی کو بھی محدود کرتے ہیں۔

گزشتہ موسم گرما میں امریکی سپریم کورٹ نے سن 1973 کے معروف کیس رو بمقابلہ ویڈ سے متعلق اپنے ہی تاریخی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت خواتین کو آئینی طور پر اسقاط حمل کا حق حاصل تھا۔ اسی متنازعہ فیصلے کے بعد اس دوا کی اہمیت بڑھ گئی۔

فیصلے کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے ملک بھر میں اسقاط حمل کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسی ریاستوں میں اسقاط حمل کرانے کی اجازت دینا جہاں اس پر پابندی نہیں ہے۔ یا پھر اس کے لیے حکومت سے فنڈز کے لیے درخواست دینے کی سہولیت، تاکہ اس کی مدد سے دوسری ریاست کی خواتین جہاں اجازت ہے وہاں جا کر اسقاط حمل کر سکیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

پاکستان: اسقاط حمل میں اضافہ کیوں؟