امریکہ پاکستان کو دو ارب ڈالر کی امداد دے گا، کلنٹن
22 اکتوبر 2010پاک امریکہ تعلقات کبھی سرد پڑ جاتے ہیں تو کبھی ان میں گرمجوشی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی فوج پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے اور مناسب اقدامات نہ کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو کچھ عرصے بعد ہی فوج کی قربانیوں کے گن بھی گائے جاتے ہیں۔ انہی جلتے بجھتے حالات میں ان دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔
پاک امریکہ مذاکرات کے تیسرے روز واشنگٹن حکام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی اہم ساتھی فوجی طاقت کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے تصدیق کی ہےکہ واشنگٹن انتظامیہ پاکستان کو عسکری شعبے کے لئے اگلے پانچ سالوں کے دوران دو ارب ڈالرکی امداد دے گی۔ پاکستان حکام بھی چاہتے تھے کہ امریکہ پاکستان کی امداد کرے کیونکہ اسی نوعیت کے ایک پیکیج کی مدت یکم اکتوبرکو ختم ہو گئی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کی جائے تو پاکستان سے زیادہ بہتر حلیف کوئی نہیں ہے۔ کلنٹن کے بقول یہ رقم 7.5 ارب ڈالر کی اُس امداد کے علاوہ ہے، جس کی منظوری گزشتہ برس ہوئی تھی۔ دو ارب کے اس امدادی پیکیج کو بھی منظوری کے لئے کانگریس بھیجا جائے گا۔
اس امدادی پیکیج کو دونوں ممالک کے بگڑتے سنورتے تعلقات میں ایک نیا موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ عسکری شعبے میں دو ارب ڈالر کی امداد بھارت کی تشویش میں اضافہ کر سکتی ہے۔
مذاکرات کا آغاز رواں ہفتے بدھ کے روز ہوا تھا۔ اس دن امریکی صدر باراک اوباما نے بھی پاکستانی وفد سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے آئندہ برس پاکستان کا دورہ کرنے کا اعلان کیا اور پاکستانی صدر آصف زرداری کو بھی واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ بدھ کے روز ہی پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس سے ملاقات کی۔ مذاکرات کے اس تیسرے اور اہم دورکے لئے 13 ورکنگ گروپ تشکیل دئے گئے ہیں، جن کا کام اس دوران صحت، پانی، تجارت اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو مستحکم کرنے کا جائزہ لینا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے ہلیری کلنٹن کا کہنا تھا کہ یہ دہشت پسند گروپ پاکستان کے عوام، پڑوسی ممالک اور امریکہ سمیت پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں۔ کلنٹن کے بقول دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے پاکستانی فوج کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور قربانیوں کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔
اس سے قبل اکتوبر میں ہی وائٹ ہاؤس نےکانگریس کو ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ اس میں پاکستان کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج ایسی کارروائیوں سے گریز کرتی رہی ہے، جن میں اُس کا القاعدہ اور افغان طالبان کے ساتھ براہِ راست تصادم ہو۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی