1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکہ کا اصل خطرہ امریکہ میں ہی آباد انتہاپسند‘

6 مئی 2010

نیو یارک شہر کے ٹائمز سکوائر میں ناکام حملے کی کوشش نے ایک بار پھر دنیا کے مبصرین کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اُن میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ امریکہ کو اصل خطرہ امریکہ کے اندر موجود انتہاپسندوں سے ہے۔

https://p.dw.com/p/NFLo
تصویر: AP

امریکہ سمیت مغرب کے بہت سارے ملکوں میں آباد ’مسلمانوں میں انتہاپسند عقائد کے فروغ‘ نے بہت سارے خطرات کو جنم دے دیا ہے۔ یہ تمام ملک انہی لوگوں کے جہادی رویوں کی زد میں ہیں اور مجموعی داخلی صورت حال خاصی گھمبیر ہو چکی ہے۔ نیو یارک کے ٹائمز سکوائر کی ناکام سازش ہو یا برطانیہ میں سن دو ہزار پانچ میں ریل گاڑیوں پر حملوں کے واقعات ہوں، ان میں نوجوان مسلمان انتہاپسند سرگرم دکھائی دئے۔ مبصرین کے خیال میں یہ وہ نوجوان ہیں، جو مرکزی دھارے سے کٹتے کٹتے اب بالکل تہنا ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ میں آباد پاکستانی تارکین وطن کا تقابلی جائزہ کیا جائے تو اعداد و شمار کی روشنی میں امریکہ میں پاکستانی تارکین وطن برطانیہ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کے مقابلے میں اقتصادی طور پر زیادہ آسودہ حال ہیں اور وہاں کے معاشرے میں ان کی کھپت بھی زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے خیال کیا جاتا تھا کہ امریکہ کو ایسے پاکستانی نوجوانوں سے کم خطرہ لاحق ہے، لیکن فیصل شہزاد کے کردار نے اس خیال کو خام قرار دے دیا ہے۔ اس تناظر میں اب مبصرین یہ کہنے لگے ہیں کہ امریکہ کو بھی امریکی مسلمان خاندانوں کے اُن نوجوانوں سے خاصا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، جو اب جہادی نظریے کے زیر اثر آ چکے ہیں۔

Fuel for hate
اسلام آباد کی لال مسجد کے باہر جہادی لٹریچر کا سٹالتصویر: AP

اس مناسبت سے ایک فلسطینی ڈاکٹر کی ٹیکساس کے فوجی مرکز میں بلا جواز فائرنگ کے واقعے کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جہادی نظریوں سے متاثر ہوکر پانچ امریکی نوجوان پاکستان پہنچ کر متحارب تنظیموں میں شرکت کے خواہشمند تھے، لیکن اس سے پہلے ہی وہ پاکستانی پولیس کی گرفت میں آگئے۔ پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ایاز امیر کا خیال ہے کہ برطانیہ میں ایک بڑی پاکستانی کمیونٹی برسوں سے آباد ہے، ان کے نوجوان مختلف مذہبی اور مخصوص معاشی و سماجی میل ملاپ سے ایک طرف ہو کر ایک علٰیحدہ گروپ کا حصہ بن چکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا اصرار ہے کہ امریکہ مانے یا نہ مانے عراق جنگ اور افغانستان میں اس کی فوجی مداخلت بھی جہادیوں کو تقویت دے رہی ہے۔

برطانیہ میں ساڑھے سات لاکھ پاکستانی نژاد آباد ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق متنازعہ کشمیری علاقے سے ہے۔ کشمیر کا تنازعہ بھی عسکریت پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خاص طور پر اسی کی دہائی کے دوسرے حصے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جس انداز کی عسکری کارروائی میں اضافہ ہوا ہے، وہ برطانیہ میں آباد مخصوص گروپ کے نوجوانوں کے لئےکشش کا باعث بنی۔ اسی کی دہائی سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی جہادی گروپ سرگرم ہیں۔

Schwarz und Weiß
انڈونیشیا کے انتہاپسند گروپ کا ایک نوعمر ورکرتصویر: AP

امریکہ میں دو لاکھ سے بھی زائد پاکستانی نژاد تارکین وطن آباد ہیں۔گزشتہ سال امریکہ نے پندرہ ہزار پاکستانیوں کو مستقل سکونت کا اجازت نامہ جاری کیا تھا۔ دو لاکھ سے زائد پاکستانیوں میں سے آدھے گریجویٹ ہیں اور پیشہ ورانہ تعلیم کے حامل ہیں۔ انہی میں سے ایک فیصل شہزاد بھی ہے، جو امریکی ریاست کانیٹی کٹ میں مالیاتی تجزیہ کار کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ پاکستانی فضائیہ کے افسر کا بیٹا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کو بھی برطانیہ اور کینیڈا کی طرح اہم اقدامات کرنے ہوں گے اور ایسی کمیونٹی میں مخصوص سوچ اور فکر کے نوجوانوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی فکر میں تبدیلی کے لئے خصوصی سماجی فلاح و بہبود کے پروگرام تیار کرنے ہوں گے تا کہ اُن کو مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جا سکے۔



رپورٹ: عابد حسین⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: گوہر نذیر گیلانی