امریکی انتخابی نتائج کے یورپی یونین کے لیے کیا معنی ہیں؟
7 نومبر 2024امریکہ کے نومنتخب صدر کے لیے مارک روٹے کا پیغام بہت صاف تھا۔ نیٹو کے نئے سیکرٹری جنرل ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی جیت پر مبارکباد دینے والے اولین رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ روٹے نے ایک بیان میں کہا، "میں نیٹو کی طاقت کے ذریعے امن کو آگے بڑھانے کے لیے ان کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کا منتظر ہوں۔"
نیٹو سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکہ اور یورپی یونین کی شدید نکتہ چینی
لیکن اس کے فوراﹰ بعد انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "نیٹو میں، امریکہ کے 31 دوست اور اتحادی ہیں جو امریکی مفادات کو آگے بڑھانے، امریکی طاقت کو بڑھانے اور امریکیوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔" یہ دراصل اس جانب اشارہ تھا کہ اتحاد اور اس کی باہمی دفاعی شق کا پابند رہنے سے واشنگٹن کو کیا حاصل ہوتا ہے۔
کیا ٹرمپ ٹرمپ کے مزاج شناس کی بات سنیں گے؟
روٹے کو "ٹرمپ کا مزاج شناس" سمجھا جاتا ہے – یعنی ایک ایسا شخص جو جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیسے نمٹا جائے، ان کی انا کی تسکین کیسے کی جائے۔
ڈچ وزیر اعظم کے طور پر، روٹے ٹرمپ کو 2018 کے موسم گرما میں نیٹو سربراہی اجلاس کو پٹری سے اتارنے سے روکنے میں کامیاب رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اتحادیوں کے دفاع پر زیادہ خرچ کرنے کے لیے امریکی صدر کے کردار کی زبردست تعریف کی تھی۔
یورپ کو اپنے دفاع کا بیڑہ خود اٹھانا ہو گا، جرمن وزیر
روٹے نے اپنے بیان میں کہا کہ فی الحال، نیٹو کے دو تہائی ارکان اپنی جی ڈی پی کا کم از کم 2 فیصد دفاع پر خرچ کرتے ہیں، اور دفاعی اخراجات اور پیداوار پورے اتحاد میں آگے بڑھ رہی ہے۔
نیٹو کے بارے میں ٹرمپ کا نقطہ نظر
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کافی ہے اور اس بار 'چاپلوسی' کتنی کامیاب ہو سکے گی۔ ٹرمپ نے بار بار واضح کیا ہے کہ وہ اتحاد کی قدر پر یقین نہیں رکھتے۔ نیٹو کے بارے میں ان کا نقطہ نظر لین دین کا ہے۔
ٹرمپ کی نیٹو پر تنقید یورپ کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟
انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ اس وقت تک اتحاد میں رہیں گے جب تک کہ یورپی ممالک "منصفانہ سلوک" کریں اور امریکی دفاعی اخراجات کا "فائدہ" اٹھانا بند کردیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو مکمل طور پر نیٹو سے نکال لیں گے، لیکن اس اتحاد کو نقصان پہنچانے کے بہت سے دیگر طریقے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹرمپ امریکہ کو فوجی کمان سے ہٹا سکتے ہیں - یہی فرانس نے 1966 میں کیا تھا۔
ایک ٹرانس اٹلانٹک تھنک ٹینک جرمن مارشل فنڈ کے ایان لیسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ "نیٹو میں حالات کو کافی مشکل بنا سکتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے ہر کام کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے۔"
نیٹو کو ہلا کر رکھ دینے کی صلاحیت
لیسر کے خیال میں، اگر نیٹو کا تعاون کرنے والا سب سے بڑا پارٹنر "اتفاق نہیں کرتا یا منحرف خیالات رکھتا ہے، تو یہ اتحاد کے تعلقات کے نظم کو بہت مشکل بنا دے گا۔" یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب یورپ میں جنگ جاری رہی ہے۔
ٹرمپ نے چوبیس گھنٹوں میں یوکرین کے خلاف روس کی جنگ ختم کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ یورپ میں بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ یوکرین کی قیمت پر روسی رہنما ولادیمیر پوٹن کے ساتھ کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں یا کم از کم وہ کییف کے لیے امریکہ کی حمایت کو کم کر سکتے ہیں۔
بروگل تھنک ٹینک کے سینئر فیلو جیکب کرکیگارڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرمپ یوکرین کو ہتھیاروں کی ترسیل کم کر سکتے ہیں یا "امریکی فوج اور انٹیلی جنس سروسز کو یوکرین کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بند کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔" اس کے یوکرین کی جنگی کوششوں پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کیا یورپی اس خلا کو پر کر سکتے ہیں؟
اسٹیون بلاک مینز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یوکرین کے لیے امریکی امداد انتہائی اہم رہی ہے۔ برسلز میں سینٹر فار یوروپیئن پالیسی اسٹڈیز کے سینئر فیلو مینز نے اشارہ کیا کہ یورپی اس امداد کی جگہ نہیں لے سکتے۔
مینز نے کہا، "زیادہ اسٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے کے متعلق یورپ میں تمام باتوں کے باوجود، "حقیقت میں، سکیورٹی اور تجارت دونوں لحاظ سے، امریکہ پر انحصار بڑھ گیا ہے۔" انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے تمام غیر ملکی درآمد شدہ اشیا پر محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی تھی اس کے مدنظر امریکہ کے ساتھ ممکنہ تجارتی جنگ یقینی طور پر یورپیئن کے لیے پریشانی کا ایک اور سبب ہو گا۔
مزید یورپی خودمختاری کا مطالبہ
لیکن کیا امریکی انتخابات کا نتیجہ یورپی یونین کی مزید خود مختاری اور اتحاد کی مہم کو تیز کر سکتا ہے؟ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکرون کو یقینی طور پر ایسا لگتا ہے۔ امریکی انتخابات کے بعد، ماکرون نے کہا کہ وہ اور جرمن چانسلر اولاف شولس، "اس نئے تناظر میں ایک زیادہ متحد، مضبوط، زیادہ خودمختار یورپ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔"
یورپی پارلیمنٹ میں بہت سے لوگ اس پر متفق نظر آتے ہیں۔ ایسٹونیا کے سابق وزیر خارجہ اور اب یورپی قانون ساز، سوین مکسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمیں واقعی یورپ کی مسابقت، صنعتی اور تکنیکی خودمختاری میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ہمیں واقعی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔"
ٹرمپ کی یورپ میں عوامیت پسند رہنماؤں کی حوصلہ افزائی
تاہم ماہرین شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ جرمن مارشل فنڈ کے ایان لیسر نے کہا کہ "ایک خوش گمانی کے ساتھ اسٹریٹیجک خود مختاری کے بارے میں بات کرنا ایک چیز ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا کرنا بالکل دوسری بات ہے۔ اس کے لیے یورپی دفاعی صلاحیت کو ازسر نو تعمیر کرنا ہو گا اور اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔"
مزید یہ کہ یورپ کو خودمختاری کے بارے میں نئی بحث ایسے حالات میں کرنی ہوگی جب براعظم معاشی اتار چڑھاؤ، گرتی ہوئی مسابقت اور ان سب سے بڑھ کر دائیں بازو کی قوم پرستی کا عروج جیسے حالات سے گزر رہا ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ براعظم میں عوامیت پسند قوم پرست جماعتیں، جو کہ حالیہ یورپی اور قومی انتخابات سے دوبارہ متحرک ہوئی ہیں، زیادہ خود مختاری کی ضرورت نہیں دیکھتی ہیں۔
ٹرمپ کی جیت نے شاید یورپ کو حیران نہ کیا ہو۔ لیکن، جیسا کہ اسٹیون بلاک مینز نے اشارہ کیا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ "یہ افراتفری کا دور نہیں ہو گا۔"
ج ا ⁄ ص ز ( الیگزینڈرا وون ناہمین)