امریکی انخلا اور افغانستان میں مزید قتل و غارت گری کے خدشات
14 اپریل 2021افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق قیام امن کی سفارتی کوششوں کے برعکس ملک میں قتل و غارت گری میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ کو ایک بیان میں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ڈیبرا لوئنز نے متنبہ کیا کہ افغانستان میں اگر ابھی قیام امن کی ہر ممکن کوشش نہ کی گئی تو اس سال مزید ہزاروں افغان شہری ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ستمبر میں طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات سے یہ امید جاگی تھی کہ شاید عام شہریوں کی زندگیوں کو کچھ تحفظ مل سکے گا۔ لیکن پچھلے چھ ماہ کے دوران تشدد میں کمی کی بجائے نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق ستمبر2020 سے لے کر مارچ 2021 کو دوران عام شہریوں کے خلاف حملوں میں پچھلے سال کی نسبت 38 فیصد اضافہ ہوا۔
افغانستان پھر طالبان کے حوالے؟
امریکا افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں دو ٹریلین ڈالر جھونک چکا ہے جبکہ نیٹو اور اس کے اتحادی ممالک بھی اربوں ڈالر لگا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق صرف پچھلے دس سال کے دوران 32 ہزار لوگ مارے گئے جبکہ 60 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اس تمام تباہی اور بربادی سے کیا حاصل ہوا؟
افغانستان میں بعض ماہرین کا شروع سے موقف رہا ہے کہ طالبان نہ کبھی قیام امن میں سنجیدہ تھے نہ ہیں اور نا ہی ان کا ملک میں اب اتنا اثر و رسوخ ہے کہ وہ جنگ و جدل روکوا سکیں۔
تاہم کچھ دیگر مبصرین کا کہنا ہے طالبان اب بھی ایک مؤثر فورس ہیں اور وہ چاہیں تو قیام امن میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال فروری 2020 میں طالبان کی طرف سے ایک ہفتے کا سیز فائر تھا، جس کے دوران افغانستان میں پُرتشدد واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی۔
بلآخر ٹرمپ حکومت نے پچھلے سال کہا کہ وہ افغانستان سے اپنی بقیہ افواج اس سال یکم مئی تک نکال لے گا۔ تاہم صدر جو بائیڈن کی حکومت کی طرف سے اشارے ہیں کہ اب امریکی انخلا اس سال گیارہ ستمبر کو مکمل کیا جائے گا۔ امریکی حکومت نے بظاہر ایک ایسے وقت میں افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، جب طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
تلخ زمینی حقائق
اقوام متحدہ کے مطابق صرف اس سال کے پہلے تین ماہ کی پرتشدد کارروائیوں میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 29 فیصد اضافہ ہوا۔
ملک میں جاری قتل و غارت گری کے واقعات میں 573 عام لوگ مارے گئے جبکہ 1210 زخمی ہوئے۔ ان میں عورتوں کے خلاف تشدد میں 37 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا جبکہ بچوں کے خلاف 23 فیصد اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ کے مطابق طالبان 43.5 فیصد حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذمہ دار تھے جبکہ ملک میں 17 فیصد تشدد کے لیے افغان نیشنل آرمی ذمہ دار تھی۔