داعش کے نائب سربراہ کی ہلاکت: القدولی کون تھا؟
26 مارچ 2016ایشٹن کارٹر نے جمعہ 25 مارچ کے روز کہا تھا کہ شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قابض عسکریت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا نائب رہنما عبدالرحمان مصطفیٰ القدولی اسی ہفتے کیے جانے والے ایک امریکی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔
القدولی کی موت کے حوالے سے آج ہفتہ 26 مارچ کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ عراقی اور امریکی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ القدولی کی داعش کے مالیاتی امور اور انتظامی ڈھانچے پر گہری نظر تھی اور وہ اس گروہ کی مرکزی قیادت میں ایسی حیثیت کا حامل تھا کہ داعش کو اس کی موت کے اثرات سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔
عبدالرحمان مصطفیٰ القدولی کو ’حاجی ایمان‘ کے علاوہ کئی دوسرے ناموں سے جانا جاتا تھا اور وہ ایک ایسا تجربہ کار جہادی تھا، جس کے سر کی امریکا نے سات ملین ڈالر قیمت مقرر کر رکھی تھی۔ آئی ایس یا داعش کے تنظیمی ڈھانچے میں القدولی اس گروہ کے سربراہ اور خود کو ’امیرالمومنین‘ کہلوانے والے ابوبکر البغدادی کے بعد دوسرا اہم ترین رہنما تھا، جو البغدادی کا ایک معتمد مشیر بھی تھا۔ امریکا نے القدولی کے سر کی قیمت سے زیادہ قیمت صرف البغدادی کے سر کے لیے مقرر کر رکھی ہے، جو دس ملین ڈالر ہے۔
عراق میں مختلف ملیشیا گروپوں کے انسداد کے لیے بغداد حکومت کی مشاورت کرنے والے معروف تجزیہ کار ہشام الہاشمی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’داعش کے تنظیمی ڈھانچے میں مرکزی رہنماؤں کی ہلاکت کی صورت میں اس گروپ کو اب تک جو سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے، وہ القدولی کی موت ہے۔‘‘
القدولی کے بارے میں یہ حقائق بھی مصدقہ قرار دیے جاتے ہیں کہ وہ ابوبکر البغدادی کی مشاورت کرنے والی شوریٰ کا سربراہ تھا، اس کے علاوہ وہ داعش کی قائم کردہ نام نہاد خلافت میں ایک صوبے کے طور پر شام کا گورنر بھی تھا اور ساتھ ہی اس تنظیم کا ’وزیر خزانہ‘ بھی۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق القدولی ماضی میں اسامہ بن لادن کے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا حصہ بھی رہا تھا، جو اپنے انتہا پسندانہ مذہبی خیالات کے سبب ایک عراقی شہری کے طور پر صدام دور میں کئی بار گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ 1988 میں القدولی افغانستان گیا تھا، جہاں اس کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی تھی۔
عراقی سکیورٹی تجزیہ کار ہشام الہاشمی کے مطابق القاعدہ کے ایک کمانڈر کے طور پر 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے اس دہشت گردانہ نیٹ ورک سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اپنی ایک جہادی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی، تو القدولی بھی البغدادی کے ساتھ ہی تھا۔
پھر داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں ’خلافت‘ کے اعلان کے بعد القدولی البغدادی کے اور بھی قریب آتا گیا اور اس کی ہلاکت سے پہلے تک عام خیال یہی تھا ابوبکر البغدادی کی موت کی صورت میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا نیا سربراہ القدولی ہی کو بننا تھا۔
داعش کی جہادی سرگرمیوں اور اس کی مرکزی قیادت سے متعلق معلومات رکھنے والے ماہرین اور عسکری ذرائع کے مطابق اب اس گروپ میں ممکنہ طور پر البغدادی کی مشاورت کرنے والی شوریٰ کا نیا سربراہ عبداللہ الخاتونی کو بنایا جائے گا، جو اب تک اس گروپ میں انصاف سے متعلقہ امور کا نگران ہے۔
اسی طرح داعش کے مالیاتی امور کا نیا نگران عیاد العبیدی کو بنایا جا سکتا ہے، جو فاضل حیفہ بھی کہلاتا ہے، اور صدام دور کے عراق میں ایک سکیورٹی اہلکار رہ چکا ہے۔ یہی وہ العبیدہ ہے، جسے کچھ عرصہ قبل داعش کے ’وزیر جنگ‘ ابوعمر الشیشانی کی ایک فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد الشیشانی کی ذمے داریاں بھی سونپ دی گئی تھیں۔
روئٹرز نے یہ بھی لکھا ہے کہ شام اور عراق میں جہادی گروپوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے چند ماہرین کی رائے میں داعش کی طرف سے شام کا نیا گورنر اب ممکنہ طور پر ابومحمد العدنانی کو بنایا جا سکتا ہے، جو اب تک اس عسکریت پسند گروہ کا ترجمان ہے۔ امریکا نے العدنانی کے سر کی بھی پانچ ملین ڈالر قیمت مقرر کر رکھی ہے۔