امریکی خلائی ادارہ ناسا اور نئی منصوبہ بندی
13 مارچ 2010امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے امریکی خلائی ادارے ناسا کے چاند مشن کو منسوخ یا کم از کم کافی عرصے کے لئے مؤخر کرنے کے فیصلے سے امریکی خلا بازوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اپالو تیرہ کے مشن کے نگران جم لوول کے مطابق اوباما کا یہ فیصلہ امریکی خلائی منصوبہ بندی کے لئے تباہ کُن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح چاند پر آخری بار قدم رکھنے والے امریکی خلاباز یوجین نے بھی صدارتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ ماہ موجودہ امریکی صدر نے اپنے پیشرو جورج بُش کے منظور کردہ انتہائی کثیر المالیاتی چاند پروگرام کی منسوخی کی بات کی تھی۔ ناسا کے سائنسدانوں کو اب بھی یقین ہے کہ وہ چاند پر انسان بردار مشن کی تکمیل ضرور کرے گی جب کہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اب یہ ممکن نہیں ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خواب اب دہائیوں کے بعد ہی پورا ہو سکتا ہے۔
اس مناسبت سے کہا جا رہا ہے کہ سن 2028 سے قبل امریکی خلائی مرکز کی جانب سے انسان بردار خلائی جہاز کی چاند پر روانگی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
گزشتہ دو سالوں کی کساد بازاری کا امریکی خلائی ریسرچ پر پڑنے والا یہ براہ راست بڑا اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2011 کے لئے سالانہ بجٹ میں ناسا کے لئے مختص بجٹ پر ایک بڑی کٹوتی تجویز کی گئی ہے۔
امریکی خلائی تحقیق کی منصوبہ بندی کے حوالے سے صدر اوباما اگلے ماہ یعنی اپریل کی پندرہ تاریخ کو فلو ریڈا میں ایک اہم کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ اس کانفرنس میں خلائی معاملات کو زیر بحث لایا جائے گا۔ سردست ایسا دکھائی دیتا ہے کہ قومی مالیاتی معاملات کی درستگی کے تناظر میں امریکی خلائی پروگرام تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔ اگلے ماہ کی کانفرنس میں صدر اوباما ناسا کے لئے ایک خصوصی پروگرام پیش کریں گے۔ اِس پرگرام میں وہ نجکاری کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر ناسا کے پروگرام میں پرائیویٹ خلائی جہازوں اور راکٹ ٹیکنالوجی کا ادغام چاہتے ہیں۔ امریکی صدر کی یہ بھی خواہش ہے کہ ناسا اگلے پانچ سالوں میں تجارتی بنیادوں پر زمین کے قریبی خلائی حصے کے لئے پروازوں کا بھی بندوبست کرے تا کہ وہ اپنے لئے ریونیو بڑھا سکے۔
ستمبر میں امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلائی شٹل پروگرام کا بھی منطقی انجام ہو جائے گا۔ خلائی شٹلز اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گی۔ ایک خلائی شٹل اینڈیور نے اپنی آخری پرواز مکمل کر لی ہے۔ ستمبر کے بعد اگر ناسا کے منصوبوں کو کوئی عمل شکل دستیاب نہ ہو ئی تو اُس کا بین الاقوامی خلائی سٹیشن تک رسائی کا انحصار روسی خلائی مشن پر ہو گا۔ امریکہ کی چاند مشن سے دستبرداری کے بعد اب بھارت، جاپان اور چین اِس مناسبت سے مزید تحقیقی عمل کو جاری رکھیں گے۔
امریکہ کا انسان بردار خلائی جہاز سن 1969 ء میں چاند پر گیا تھا۔ ناسا اب یہ پلاننگ کر رہا تھا کہ چاند پر دوسری کہکشاؤں کے بارے میں جستجو و تحقیق کے حوالے سے تحقیقی پروگرام شروع کیا جائے۔ ناسا کا چاند کے لئے نیا مشن اپالو خلائی مشن کی اگلی نسل قرار دیا گیا تھا۔ اِس مشن میں چاند پر صرف چہل قدمی مقصود نہیں تھی بلکہ یہ مشن چاند پر بیٹھ کر بھاری دوربینوں سے آگے کی خلائی دنیا میں دیکھنے کا پروگرام تصور کیا جا رہا ہے تھا جو رواں دہائی کے آخر میں شروع کیا جانا تھا۔
رپورٹ عابد حسین
ادارت شادی خان سیف