امریکی ریاست کنیٹیکٹ میں موت کی سزا ختم کرنے کی جانب اہم پیش رفت
12 اپریل 2012امریکا میں موت کی سزا کے قانون کے خلاف کئی ریاستوں میں عملی تحریک پائی جاتی ہے۔ اس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ اس تحریک کی بازگشت پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ کی مختلف ریاستی اسمبلیوں میں بھی سنی جا رہی تھی۔ اب ریاست کنیٹیکٹ (Connecticut) کے ایوان نمائندگان نے ریاست کی حدود میں مختلف جرائم میں موت کی سزا پر عمل درآمد ختم کرنے کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔
ایوان نمائندگان میں بل کی حمایت میں 86 ووٹ ڈالے گئے اور 62 اراکین نے اس کی مخالفت میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین اس بل کی حامی ہیں جبکہ ری پبلکن پارٹی موت کے سزا کے قانون کو برقرار رکھنے کی حامی ہے۔ ریاستی اسمبلی کے ایوان میں کئی سالوں سے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو موت کی سزا ختم کرنے کے قانون پر زوردار بحث کا سلسلہ جاری تھا جو بالآخر گزشتہ رات کی ووٹنگ پر ختم ہوا۔
ریاست کنیٹیکٹ کی سینیٹ نے اس مسودہٴ قانون کی منظوری گزشتہ ہفتے کے دوران دی تھی۔ دونوں ایوانوں سے موت کی سزا کے قانون کو ختم کرنے کے قانون کی منظوری بظاہر مکمل ہو چکی ہے۔ اب اس بل کی توثیق ریاستی گورنر نے کرنی ہے۔ گورنر کے دستخط کرنے کے بعد ریاست کنیٹیکٹ میں موت کی سزا کا قانون ختم ہو جائے گا۔ اس وقت ریاست کی مختلف جیلوں میں کل گیارہ مجرم موت کی سزا کے منتظر ہیں۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کچھ اور ریاستوں نے بھی موت کے قانون کی سزا پر عمل کرنا ختم کر دیا ہے۔ ان ریاستوں میں الینوائے (Illinois)، نیو جرسی (New Jersey)، نیو میکسیکو اور نیو یارک شامل ہیں۔ امریکا کی اہم اور بڑی ریاست کیلیفورنیا میں بھی موت کی سزا ختم کرنے کے لیے ریاستی اسمبلی میں رائے عامہ ہموار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
موت کی سزا کے بارے میں ایمنسٹی کی گزشتہ ماہ جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ وہ خطہ ہے جہاں موت کی سزا کے قانون پر گزشتہ سال زیادہ عمل کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موت کی سزا دینے میں چین، سعودی عرب، ایران، عراق اور امریکا سرفہرست ہیں۔ امریکا اس فہرست میں پانچویں مقام پر ہے۔ سن 2011 کے دوران مختلف امریکی ریاستوں میں کل 43 مجرموں کو موت کی سزائیں دی گئیں۔ ایمنسٹی کے مطابق امریکا میں ان ریاستوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو موت کی سزا کے قانون کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
ah/at (AFP, AP)