’امریکی، سعودی تعلقات میں ماضی جیسی گرمجوشی نہیں‘
21 اپریل 2016امریکی صدر باراک اوباما اپنے اقتدار کے آخری مرحلے میں ہیں اور غالباﹰ سعودی عرب کا یہ ان کا آخری دورہ ہے۔ اس دورے کے دوران امریکی صدر کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ ایرانی معاملے کی وجہ سے ریاض اور واشنگٹن حکومت کے تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری کو ختم کریں۔ ان کی یہ کوشش بھی ہے کہ داعش کے خلاف خلیجی ممالک کا مزید تعاون حاصل کیا جائے۔
جمعرات بیس اپریل کے روز امریکی صدر نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے بند دروازوں کے پیچھے طویل ملاقات کی تھی جبکہ آج اتوار اکیس اپریل کو انہوں نے خلیجی ممالک کی امریکا کے ساتھ سمٹ میں شرکت کی۔ دوسری جانب ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی الاخباریہ نے میٹنگ کے آغاز کو نشر نہیں کیا، جیسا کہ گزشتہ روز اوباما کی ایئر پورٹ پر آمد کو بھی نشر نہیں کیا گیا تھا۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سن دو ہزار چودہ سے داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے والے امریکی اتحاد کا حصہ ہیں لیکن بدھ کے روز امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے ایک مرتبہ پھر ان ممالک سے ’مزید مدد کرنے‘ کا مطالبہ کر دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق خلیجی تعاون کی کونسل کے رکن ملکوں اور امریکا کی اس کانفرنس میں شام کے حوالے سے خصوصی گفتگو ہوئی ہو گی کیوں کہ امریکا چاہتا ہے کہ سعودی عرب شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھتے ہوئے سنی گروپوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ جنیوا امن مذاکرات میں کوئی کامیابی حاصل ہو سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کو اس پر بھی قائل کیا جائے گا کہ وہ اپنے ہاں مزید شامی مہاجرین کو پناہ دے۔
دوسری جانب سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ پرنس ترکی الفیصل نے امریکی ٹیلی وژن سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اوباما کے طرز عمل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے، ’’میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ امریکا اب بدل چکا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اب کس حد تک امریکا پر انحصار کر سکتے ہیں؟ امریکا کی قیادت کی ثابت قدمی پر کس قدر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ اب ہمارے مشترکہ مفادات کون سے ہیں؟ ایسی بہت سے باتیں ہیں، جن کا از سر نو جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے کہ اب کوئی نیا صدر آئے گا تو تعلقات دوبارہ اپنی سابقہ سطح پر بحال ہو جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق باراک اوباما یہ یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ ایران کے طرف سے خطے کو ’غیر مستحکم کرنے‘ والی کارروائیوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ خلیجی ممالک کی سلامتی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔