امریکی سلامتی پالیسی پر نائن الیون کے گہرے نقوش
11 ستمبر 20132001ء کے بعد سے جاری عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ روز بروز نئی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ امریکی سلامتی کی پالیسی کے نئے نئے رنگ سامنے آ رہے ہیں۔
11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ واقعات کو بارہ سال گزر چکے ہیں۔ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہو جانے والے فلک بوس ٹاورز کی جگہ گراؤنڈ زیرو پرپھر سے تعمیرات کھڑی ہو چکی ہیں۔ ان دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ مسٹر مائنڈ اُسامہ بن لادن اس دنیا سے جا چُکا ہے۔ دریں اثناء امریکی فوج عراق سے نکل چُکی ہے اور آئندہ برس افغانستان سے امریکی جنگی فورسز کے انخلاء کا منصوبہ تیار ہے۔ ان تمام نئی تبدیلوں کے باوجود ایک چیز اپنی جگہ موجود ہے اور وہ ہے، واشنگٹن کی سلامتی کی پالیسی، جو گیارہ ستمبر کے بعد سے اب تک امریکی حکومت کی سوچ اور عمل پر غالب ہے۔
90ء کی دہائی میں امریکا میں سب سے زیادہ توجہ اقتصادیات پر دی جاتی تھی۔ جرمن شہر ہائیڈل برگ میں قائم سینٹر فار امیریکن اسٹڈیز کے ماہر سیاسیات مارٹن تھونرٹ کہتے ہیں،"نائن الیون کے بعد اس رجحان میں ایک دم اچانک تبدیلی آ گئی۔ اُس کے بعد تمام تر توجہ سلامتی پر مرکوز ہو گئی اور کچھ حدود کے ساتھ یہ رجحان اب بھی برقرار ہے"۔ اس طرح امریکی حکومت نے ڈرونز کے ذریعے جنگ اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر نگرانی جیسے جو اقدامات اٹھائے، اُن کی بنیاد گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات پر رکھی گئی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ
اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کی طرف سے نائن الیون کے حملوں کے بعد عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی خفیہ ایجنسیوں کی تعداد میں بھی واضح اضافہ ہو گیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 2001ء کے بعد سے امریکا کی کُل 16 انٹیلیجنس ایجنسیوں کا بجٹ دگنے اضافے کے ساتھ بڑھ کر52.6 بلین ڈالر ہو گیا۔
یہ خفیہ ایجنسیاں اور امریکا کے اتحادی ممالک کی خفیہ سروسز عالمی سطح پر مواصلاتی نظام کی خفیہ نگرانی بھی کر رہی ہیں۔ اس کا انکشاف خود امریکی خفیہ ایجنسی NSA کے سابق ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن نے کیا ہے۔ 2002ء میں قوی سلامتی کی وزارت امریکا کا تیسرا بڑا وفاقی محکمہ بن گئی۔ 2001ء سے 2012ء تک امریکی فوج پر آنے والے اخراجات 312.74 بلین ڈالر سے بڑھ کر 682.45 بلین ڈالر ہو چکے تھے۔ یہ اس عرصے میں ملٹری بجٹ میں دوگنا سے زیادہ اضافہ تھا۔
نگرانی، اذیت رسانی، سائبر جنگ اور ٹارگٹ کلنگ
فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طاقت میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے طور طریقوں میں بھی واضح تبدیلی آئی۔ گوانتانامو ہو یا عراق یا افغانستان کی جیلیں، اذیت رسانی کے لاتعداد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ماہر سیاسیات مارٹن تھونرٹ کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے تشدد لامرکزیت کا شکار ہو گیا ہے اور امریکی فوج اپنی تمام تر توجہ غیر ترتیبی جنگوں پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق دوسرے ممالک میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
دریں اثناء صدر باراک اوباما نے نمایاں طور پر جارج ڈبلیو بش کی ڈرون کارروائیوں کو وسعت دی ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق 2004ء سے اب تک پاک افغان سرحدی علاقوں میں تین ہزار پانچ سو افراد مارے گئے ہیں، جن میں سینکڑوں شہری بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یمن اور صومالیہ میں بھی متعدد امریکی ڈرون حملے ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لمبے سائے
ایک امریکی ماہر پیٹر روڈولف کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لیے بروئے کار لائے جانے والے آلات نے امریکا کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے اوباما حکومت نے ان دھبوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے متعدد اقدامات کے وعدے کیے۔ مئی 2013ء میں اوباما نے گوانتانامو جیل بند کرنے اور ڈرون حملوں میں واضح کمی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ گزشتہ تین برسوں میں ڈرون حملوں میں کمی آئی بھی ہے۔
اوباما نے ایک تقریر میں "نئے دور" کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ امریکا مستقبل میں "عالمی دہشت گردی کے خلاف کوئی لامحدود جنگ نہیں کرنا" چاہتا۔ امریکی صدر کی سرکاری زبان سے اب "دہشت گردی" کی اصطلاح غائب ہو گئی ہے تاہم اس کے متبادل کے طور پر وہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پیٹر روڈولف کے بقول اگرچہ ایک عرصے سے وہ جنگ اوباما کی اولین ترجیح نہیں رہی ہے، جو امریکا القاعدہ اور اُس کے ساتھی گروپوں کے خلاف لڑ رہا ہے تاہم یہ جنگ اُن ذرائع کا جواز پیش کرنے کے لیے ضروری بھی ہے، جو اس جنگ کے دوران استعمال میں لائے جا رہے ہیں"۔
نائن الیون کے بعد سے سلامتی سے متعلق پالیسیوں کے لیے استعمال میں لائے جانے والے آلات اور طریقہ کار کو جس طرح جدید ترین بنایا گیا ہے، وہ اب امریکی سلامتی پالیسی کا حصہ بن چُکا ہے۔ اگرچہ اوباما مستقبل میں انہیں ایک نظام کے تحت لانا چاہتے ہیں تاہم ایسے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ امریکا مستقبل میں ان کے استعمال سے اجتناب برتے گا۔
سوین پؤہل/ کشور مصطفیٰ
امجد علی