1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکی صدر کا کورونا کے نقطہ آغاز کی تفتیش کا مطالبہ

27 مئی 2021

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اب تک یہ حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ مہلک وائرس کسی جانور سے پھیلا تھا یا پھر کسی تجربہ گاہ سے باہر آیا۔

https://p.dw.com/p/3u13V
USA Washington | Joe Biden
تصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کورونا وائرس کے نقطہ آغاز یا اس کے ماخذ کی گہرائی سے تفتیش کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس برادری کی اکثریت نے دو ممکنہ منظر ناموں کے آس پاس ہی ''مل کر'' کام کیا ہے۔ اس میں ایک یہ کہ یہ وائرس کسی متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے میں آنے سے انسانوں میں پھیلا یا پھر تجربہ گاہ میں حادثاتی طور پر پیدا ہوا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اس میں سے کو ن سی بات زیادہ درست ہے، ''اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہمارے پاس مناسب معلومات موجود نہیں ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ انٹیلی جنس اداروں میں سے دو کا رجحان اس بات کی جانب ہے کہ اس کا تعلق جانوروں سے ہے جبکہ ایک ایجنسی کا نظریہ تجربہ گاہ کی جانب ہے لیکن، ''دونوں کو ہی اپنی بات پر معتدل یا پھر کم درجے کا اعتماد ہے۔''

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں امریکا کی قومی تجربہ گاہوں کو تفتیش میں مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے چین سے بھی اس بین الاقوامی تفتیش میں تعاون کرنے کا اپیل کی اور امید ظاہر کی کہ آئندہ 90 دن کے اندر اس کے نتائج آ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں، ''امریکا پوری دنیا کے ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھے گا تاکہ چین پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ ایک مکمل، شفاف، شواہد پر مبنی بین الاقوامی تفتیش میں شامل ہو اور تمام متعلقہ اعداد و شمار اور شواہد تک رسائی بھی فراہم کرے۔''

گائے کا گوبر اور پیشاب کووڈ انیس کا علاج نہیں، طبی ماہرین

شکوک و شبہات کے بادل

 امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں شامل بعض افسران خود اس نظریے کے قائل نہیں ہیں اور ان میں تجربہ گاہ سے پھیلنے کی تھیوری پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کورونا وائرس سے متعلق مشیر ڈاکٹر انتھونی فاوچی نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اور ان کے بعض معاون سائنسدان اس بات پر، ''یقین رکھتے ہیں کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ وائرس قدرتی طور پر وجود میں آیا تاہم کسی کو بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ یہی سو فیصد درست ہے۔'' 

سینیٹ کی ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران ڈاکٹر فاوچی نے کہا، ''چونکہ اس حوالے سے بہت تشویش پائی جاتی ہے، بہت سی قیاس آرائیاں بھی ہیں اور چونکہ کسی کو بھی اس بات کا ٹھوس علم بھی نہیں ہے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس نوعیت کی تفتیش کی ضرورت ہے کہ جس میں کھلی شفافیت موجود ہو اور اس کی جانچ کے لیے وہ تمام معلومات مہیا کی جانی چاہیں جو پہلے ہی سے دستیاب ہیں۔''

وائرس سے متعلق بائیڈن کے ایک سینیئر مشیر اینڈی سلاوٹ نے منگل کے روز کہا تھا کہ اس بارے میں ہمیں چین سے شفاف عمل کی ضرورت ہے۔ ''ہمیں اس معاملے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی بھی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ہمارے پاس اس وقت ایسا کچھ بھی ہے۔''

صدر بائیڈن کی جانب سے اس تفتیش کا مطالبہ بعض ان مبینہ رپورٹوں کے بعد آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ووہان کی لیباریٹری میں کام کرنے والے بعض محققین اس وبا کے انکشاف سے ایک ماہ قبل ہی بیمار ہوگئے تھے۔ 

 چین کی جانب سے سخت تنقید

امریکی صدر جو بائیڈن کے ان بیانات کے بعد ہی امریکا میں چینی سفیر نے ایک بیان جاری کر کے لیباریٹری سے لیک ہونے کے تھیوری کو ''سازشی نظریہ'' بتایا۔ بیان میں گر چہ امریکا کا نام نہیں لیا گیا تاہم اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ بعض، ''سیاسی طاقتیں وائرس کے ماخذ اور اس کے نقطہ آغاز کے حوالے سے الزام تراشی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ بعض لوگ اپنی پرانی کھیل کی کتاب کھول رہے ہیں اور غیر ذمہ دارانہ سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔''

چین کا کہنا ہے کہ اس وبا کو سیاسی رنگ دینے سے اس سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے اور چین پہلے ہی اس معاملے کی جامع تفتیش میں تعاون کر چکا ہے۔ 

جرمنی میں کورونا سے اموات: میت سوزی کے مراکز بھی مشکل میں

ڈبلیو ایچ او کی تفتیش

عالمی ادارہ صحت نے اس برس کے اوائل میں اس وائرس سے متعلق تفتیش شروع کی تھی اور ایک وفد ووہان گیا تھا۔ تاہم وہ اس بات کی حتمی تفتیش نہیں کر پایا تھا کہ آخر یہ وائرس کس جانور سے پھیلا ہو گا۔ اس وقت بھی بعض حلقوں نے اس بارے میں چین کی جانب سے تعاون نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے تفتیش کے بعد یہ بات بہت واضح انداز میں کہی تھی کہ کسی، ''لیباریٹری سے اس کا لیک ہونا انتہائی نا ممکن بات ہے۔''

یہ وائرس اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے جس سے اب تک 30 لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

 ص ز/ ج ا   (اے پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں