امریکی صدر کا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کا منصوبہ
4 دسمبر 2017نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن امریکی سفارت خانہ فی الحال وہ تل ابیب میں ہی رکھیں گے۔ امریکی صدر کی طرف سے اس حوالے سے اعلان کی توقع بدھ کے روز متوقع ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع ایویگدور لیبرمین نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے پاس یہ ’تاریخی موقع‘ ہے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیں۔ سن 1995 کے امریکی قانون کے تحت امریکی صدر کو ہر چھ ماہ بعد ایک صدارتی حکم نامہ جاری کرنا پڑتا ہے اور اس کے تحت امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے معاملے کو مؤخر کر دیا جاتا ہے۔
فلسطینی علاقوں میں تمام یہودی بستیاں غیر قانونی، یورپی یونین
دوسری جانب ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے اور یروشلم کی سفارتی حیثیت دنیا کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں فریق ہی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ تاریخی شہر یروشلم، مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا کرنے سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
دریں اثناء حالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ جدہ میں ہونے والے اس اجلاس میں 57 رکنی مسلم ممالک کی یہ تنظیم آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے مذاکرات کرے گی۔
او آئی سی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنے سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلم منقتل کرنے کو ’عرب اور مسلمان قوموں پر زبردست حملہ‘ تصور کیا جائے گا۔
دریں اثناء ترکی کے نائب وزیراعظم بکر بوزداغ نے کہا ہے کہ یروشلم کے حوالے سے امریکی فیصلہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح مشرق وسطیٰ میں ایک نیا تنازعہ شروع ہو جائے گا۔ ترکی کا کہنا تھا کہ یروشلم کی موجودہ سیاسی حیثیت بین الاقوامی قوانین کے تحت ہے اور یہ امن کی ضمانت بھی ہے۔