امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت؟
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں بیٹھنے والا امریکی صدر جو چاہے کر سکتا ہے، لیکن اصل میں صدر کے اختیارات محدود ہیں اور حکومتی ادارے بھی ان اختیارات میں شراکت دار ہیں۔
امریکی آئین کیا کہتا ہے؟
ایک صدر کوچار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور کوئی صدر زیادہ سے زیادہ دو مدتوں کے لیے منتخب ہو سکتا ہے۔ صدر سربراہ ریاست بھی ہوتا ہے اور سربراہ حکومت بھی۔ وفاقی ایگزیکٹو برانچ کا کنٹرول بھی صدر کے پاس ہوتا ہے جس میں ملکی افواج سمیت 40 لاکھ سے زائد ملازمین ہیں۔ صدر کانگریس کی طرف سے منظور شدہ قوانین کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
چیک اینڈ بیلنس
حکومت کی تین شاخیں، انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ اختیارات شیئر کرتی ہیں۔ صدر مجرموں کی سزائیں معاف کر سکتا ہے اور وفاقی ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان کی تصدیق کے لیے سینیٹ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ صدر سینیٹ کی منظوری سے کابینہ کے ارکان کا تقرر بھی کرتا ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے جس کے زریعے مقننہ انتظامیہ کو کنٹرول کرتی ہے۔
ریاست یونین کی طاقت
صدر کو وقتاﹰ فوقتاﹰ ملکی معاملات کے بارے میں کانگریس کو بتانے کی ضرورت ہوتی ہے، سالانہ ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب کا یہی مقصد ہے۔ صدر قانون سازی کے لیے خود تو بل پیش نہیں کر سکتا، لیکن وہ ان موضوعات اور اقدامات کی طرف توجہ دلا سکتا ہے، جو بہت اہم ہوں۔ یہ کانگریس کو عوامی دباؤ میں رکھنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
صرف ’نہیں‘ کہہ دینے کا اختیار نہیں
صدر کسی بل پر دستخط کیے بغیر اسے ویٹو کر کے کانگریس کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ لیکن اس ویٹو کو کانگریس کے دونوں ایوانوں یعنی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹ کے مطابق 1530 صدارتی ویٹو میں سے صرف 112 کو کامیابی کے ساتھ ختم کیا گیا ہے۔ یہ تقریباﹰ 7.3 فیصد تعداد بنتی۔
اختیارات کے وہ حصے جو واضح نہیں
آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے اس بات کی مکمل وضاحت نہیں کرتے کہ صدر کے پاس کتنا اختیار ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ کے نام سے جانا جانے والا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ صدر کانگریس سے آنے والے بل کو اپنے پاس رکھ لے یعنی ’جیب میں ڈال لے‘، اس طرح اس بل پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ کانگریس اس ویٹو کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس طریقے کو ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کیا جا چکا ہے۔
وہ احکامات جو قانون کی حیثیت رکھتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو ایک خاص حد تک کاموں کو پورا کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ’ایگزیکٹو آرڈرز‘ قانون جیسی طاقت رکھتے ہیں، جن کے لیے کسی اور منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر جو چاہے کر سکتا ہے۔ عدالتیں ایسے کسی حکم کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں، کانگریس جوابی قانون سازی کر سکتی ہے اور آئندہ صدر اسے منسوخ کر سکتا ہے۔
کانگریس کو ’بائی پاس‘ کرنا
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتے ہیں، لیکن انہیں سینیٹ کی طرف سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ صدر اس کے بجائے ایک ’ایگزیکٹو معاہدہ‘ جاری کر کے اس سے عمل سے بچ سکتے ہیں۔ سال 2023 میں امریکہ نے جاپان کے ساتھ ان معاہدوں میں سے ایک پر دستخط کیے تھے۔ ایسے معاہدے اس وقت تک درست ہیں جب تک کانگریس اعتراض نہیں اٹھاتی۔
امریکی فوجیوں کو لڑنے کے لیے بھیجنے کا فیصلہ
صدر امریکی افواج کے کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، لیکن جنگ کا اعلان کانگریس کرتی ہے۔ صدر کانگریس کی منظوری کے بغیر فوجیوں کو مسلح تصادم میں شامل کر سکتے ہیں، لیکن یہ معاملہ دھندلا ہے۔ مثال کے طور پر، کانگریس نے ویتنام جنگ میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی شمولیت کو روکنے کے لیے قانون کے ذریعے قدم اٹھایا۔ مختصر یہ کہ صدر کے کچھ اختیارات اس وقت تک برقرار رہتے ہیں جب تک کانگریس اس میں کمی نہیں کرتی۔
حتمی کنٹرول
اگر کوئی صدر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتا ہے یا کوئی جرم کرتا ہے تو ایوان نمائندگان مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ کے دوران تین صدور کے ساتھ ایسا ہوا ہے: اینڈریو جانسن، بل کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ، جن میں سے کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ لیکن کانگریس کے پاس ایک بڑا اختیار ہے: چونکہ وہ بجٹ کی منظوری کی ذمہ دار ہے، اس لیے وہ ملک میں کیش کے بہاؤ کو کم کر سکتی ہے۔