1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوجیوں کی تربیت کا انوکھا ڈھنگ

ندیم گل23 مارچ 2009

ایک تحقیقی مرکز امریکی محکمہ دفاع اور زیر تربیت فوجیوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہ 2001 میں امریکہ پر حملوں کے بعد کی صورت حال میں دشمن کے بارے میں بہتر فہم پیدا کرنے کے لئے اس مرکز کے تجربے سے استفادہ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HHuT
تصویر: picture-alliance / dpa

یہ ادارہ مرکز برائے انسداد دہشت گردی یا سی ٹی سی کہلاتا ہے جس کا قیام 11 ستمبر کے حملوں کے بعد عمل میں آیا۔

امریکہ کی مرکزی ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت فوجیوں کو جغرافیائی سیاسیات کے بدلتے ہوئے حقائق کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا سی ٹی سی کا مقصد ہے۔ جہادی تحریک کا موضوع اس کے نصاب میں شامل ہے۔

امریکہ پر حملوں کے بعد مقامی تاجر اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ ونسنٹ ویولا نے اس مرکز کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد القاعدہ اور اسلامی عسکریت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنا تھا۔ ویولا اس وقت نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج کے چیئرمین تھے۔ 11 ستمبر کے حملوں میں تباہ ہونےوالے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں ان کے دفاتر تھے اور اس سانحے میں ان کے متعدد ملازمین جاں بحق ہو گئے تھے۔

سی ٹی سی کے ڈائریکٹر برائے تحقیق برائن فش مین کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور محکمہ دفاع پر حملوں نے ایک نئے خطرے کو جنم دیا تھا اور ونسنٹ ویولا زیرتربیت فوجیوں کو اس خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا چاہتے تھے۔ وہ سمجھنا چاہتے تھے کہ ان حملوں کے ذمے داروں نے آخر عمارتیں کیوں گرائیں۔

یہ ادارہ چین کے قدیم سپہ سالار Sun Tzu کے "دشمن کو جانو" کے اصول سے متاثر ہو کر قائم کیا گیا۔ اسے القاعدہ نیٹ ورک کے بارے میں تحقیق کے حوالے سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل سی ٹی سی ایک تھنک ٹینک کا کام کرتا ہے اور اس کی مرتب کردہ رپورٹیں دُنیا بھر میں قانون سازوں، سفارت کاروں اور حکومتی سطح پر مقبول ہیں۔

سی ٹی سی کا بجٹ ظاہر نہیں کیا جاتا تاہم اسے ملٹری اکیڈمی کے بجٹ سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ یا محکمہ دفاع، کسی کو بھی سی ٹی سی سے مخصوص سوالوں کی وضاحت درکار ہوں تو وہ اس مقصد کے لئے ادائیگی کرتے ہیں۔ اس تحقیقی مرکز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رئید سوئیر کہتے ہیں کہ اس طرح کے مالیاتی نظام کا مقصد مرکز کو حکومت اور فوج کے اثر سے آزاد رکھنا ہے۔ انہوں نے بتایا، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی رپورٹوں میں کھل کر اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔

سی ٹی سی میں 14 محققین کام کر رہے ہیں جبکہ دیگر عملہ 25 افراد پر مشتمل ہے جن میں عربی اور دیگر وسطی ایشیائی زبانوں پر عبور رکھنے والے ماہرین شامل ہیں۔

اس مرکز کو یہ کام بھی سونپا گیا ہے کہ عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی جانب سے عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کے بارے میں جمع کی گئی خفیہ معلومات اور اعدادوشمار کا تجزیہ کرے۔ بعدازاں یہ معلومات خفیہ نہیں رہتیں۔