امریکی قرضوں کی حد میں اضافہ، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
1 اگست 2011اتوار اکتیس جولائی کی رات، جس وقت صدر اوباما یہ اعلان کر رہے تھے کہ سرکاری قرضوں کی حد میں اضافے سے متعلق مذاکرات میں وہ ایک معاہدے تک پہنچ گئے ہیں، اُس وقت ایشیائی منڈیوں میں یکم اگست پیر کی صبح تھی اور کاروبار کا آغاز ہو رہا تھا۔ اس اعلان کے بعد عالمی منڈیوں میں بہتری واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
لیکن جو سمجھوتہ امریکی صدر، اہم ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان طے پایا ہے، اس کی امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں لازمی منظوری ابھی باقی ہے۔ کیا سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں یہ بل منظور کر لیا جائے گا، فی الحال اس بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس سمجھوتے پر رائے شماری آج ہی ہو رہی ہے لیکن ابھی بھی ایسے اراکین کانگریس کی کمی نہیں، جو اس بل کی مخالفت میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
ریپبلکنز کے دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ قرضوں کی حد میں اضافہ غیر ضروری ہے کیونکہ اوباما حکومت کی طرف سے سماجی اخراجات میں ضروری کٹوتیاں نہیں کی گئیں۔ دوسری طرف ڈیموکریٹس سماجی اخراجات میں کمی کے اصولی طور پر مخالف ہیں لیکن اب اس سمجھوتے میں مزید تبدیلیوں کے لیے امریکی حکومت کے پاس کوئی وقت نہیں بچا۔ ریاستی قرضوں کی حد میں اضافے کے لیے مقررہ میعاد دو اگست یعنی کل منگل کو ختم ہو رہی ہے۔ اگر قرضوں کی حد بڑھانے پر سخت گیر موقف رکھنے والی دونوں جماعتوں میں کوئی اتفاق نہیں ہوتا، تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور امریکی ریاست دیوالیہ بھی ہو سکتی ہے۔
یوں امریکہ سے ریاستی امداد حاصل کرنے والے اس سے محروم ہو جائیں گے اور شرح سود میں اضافے کے باعث چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد نئے قرض لینے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم دونوں جماعتیں ایک بات پر متفق ہیں کہ حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ دونوں ہی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ 14.3 ٹریلین ڈالر کے ریاستی قرضے امریکہ کے لیے بہت زیادہ ہیں۔ اس سے پہلے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے، لیکن نئے سمجھوتے کے تحت وہ اپنے اس مطالبے سے پیچھے ہٹتے نظر آتے ہیں۔ آج پیر کو اگر امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں یہ بل پاس نہیں ہوتا تو یہ بات امریکہ کے لیے کسی آفت سے کم نہیں ہو گی۔ اس صورت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، حد سے زیادہ قومی قرضے اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت امریکی ریاست کا مقدر بن جائیں گے۔
تبصرہ: کرسٹینا بیرگ مان، واشنگٹن
ترجمہ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک