امریکی مسلمانوں کی خدمات دوسرے امریکیوں سے کم نہیں، اوباما
22 جولائی 2016واشنگٹن سے جمعہ بائیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر نے مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالفطر کی مناسبت سے اپنی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں جمعرات کی رات اہتمام کردہ ایک استقبالیے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی تعمیر و ترقی میں مسلم تارکین وطن نے بھی بے تحاشا خدمات انجام دی ہیں۔
باراک اوباما نے کہا کہ ایک مذہب کے طور پر اسلام یا مسلمانوں کے خلاف عمومی امتیازی رویہ اختیار کرنے کا مطلب دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنا ہو گا۔ اوباما نے کہا، ’’مسلمان امریکی بھی اتنے ہی محب وطن ہیں، امریکی معاشرے میں اتنے ہی زیادہ ضم ہو چکے ہیں اور اتنے ہی زیادہ امریکی ہیں جتنے کہ امریکا میں رہنے والے کسی بھی دوسرے مذہب کے ماننے والے شہری۔‘‘
روئٹرز کے مطابق باراک اوباما نے کہا کہ امریکی معاشرہ ایک خاندان ہے، جس کے رکن کے طور پر امریکی مسلمان کسی بھی دوسرے رکن سے کم نہیں ہیں۔
اس موقع پر امریکی صدر نے زور دے کر کہا، ’’چاہے آپ (مسلمانوں) کا خاندان یہاں کئی نسلوں سے آباد ہے یا آپ امریکا میں نئے آئے ہیں، آپ امریکا کے معاشرتی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔‘‘
اوباما انتظامیہ کو اس کے ان ارادوں کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے، جن کے تحت سال رواں کے آخر تک امریکا کو اپنے ہاں دس ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دینا ہے۔
واشنگٹن حکومت کے ان منصوبوں پر کئی ریپبلکن سیاستدانوں نے یہ کہتے ہوئے بلند آواز اعتراضات بھی کیے تھے کہ اس طرح ’تشدد پر آمادہ عسکریت پسند‘ مہاجرین کے روپ میں امریکا میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اس پس منظر میں صدر اوباما نے امریکا میں اسی سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور ارب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کا خاص طور پر نام لیے بغیر کہا کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی امتیازی پالیسیاں یا امتیازی سوچ ’بنیادی امریکی اقدار کے عینی منافی‘ ہیں۔
باراک اوباما نے عید استقبالیے کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’مسلم امریکیوں کو تنہا کرنے کی کسی بھی کوشش سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کے اس جھوٹ کو تقویت ملے گی کہ مغربی دنیا ایک ایسے مذہب کے خلاف جنگ کر رہی ہے، جس کے پیروکاروں کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے بھی یہ کوئی دانش مندانہ عمل نہیں ہو گا۔‘‘