امریکی مسیحیوں کے وفد سے سعودی ولی عہد کی ملاقات
2 نومبر 2018امریکی وفد کی جانب سے کی گئی ایک ای میل میں بتایا گیا ہے کہ اس گروپ کی قیادت کمیونیکیشن کے وضع کار اور امریکی مصنف جوئل روسن برگ نے کی جبکہ سابقہ کانگریس رکن مشعل بوخمَن اور چند پروٹسٹنٹ تنظیموں کے سربراہان بھی وفد میں شامل تھے، جن میں سے بعض اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔
ای میل کے ذریعے دیے جانے والے اس بیان میں کہا گیا،’’پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے امریکی مسیحیوں کے ایک وفد کا اعلانیہ طور پر خیر مقدم کرنا پرنس محمد بن سلمان کے لیے تاریخی لمحہ تھا۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے اس وفد نے اعلیٰ سعودی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں سعودی وزیر خارجہ عدل الزبیر، واشنگٹن میں سعودی سفیر خالد بن سلمان اور مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل محمد العیسیٰ شامل ہیں۔
ایسے مسیحی رہنماؤں کی محمد بن سلمان سے کھلم کھلا ملاقات، جو بقول خود اُن کے ساٹھ ملین مسیحیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ایک ایسا واقعہ ہے جس کا مظاہرہ سعودی حکومت کی جانب سے شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب مذہب اسلام میں مقدس خیال کیے جانے والے مقامات میں شامل ہے اور جہاں دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کو مذہبی رسوم ادا کرنے کی اجازت نہیں، مسیحی وفد کی آمد اپنی طرز کا انوکھا واقعہ ہے۔
وفد میں شامل بعض ارکان اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ریاض حکومت نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان میں یروشلم پریئر ٹیم کے مائیک ایوانس بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب نے برسوں سے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنا عرب علاقوں سے اس کے انخلاء سے مشروط کر رکھا ہے۔ تاہم دوسری جانب تہران اور ریاض کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی کشیدگی اسرائیل اور سعودی عرب کو ایک ’مشترکہ ایرانی خطرے‘ کے خلاف مل کر کام کرنے کے حوالے سے قریب لا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے رواں برس اپریل میں امریکی جریدے ’دا اٹلانٹک‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں پہلی بار کھل کر کہا تھا کہ ’اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے‘۔
ص ح / ع ا / نیوز اجنسی