ایس جے شنکر کی امریکی میڈیا پر تنقید
26 ستمبر 2022بھارت کے وزیر دفاع ایس جے شنکر 25 ستمبر اتوار کے روز امریکہ میں بھارتی کمیونٹی سے بات چیت کر رہے تھے، جہاں انہوں نے امریکی میڈیا پر خاص طور پر شدید تنقید کی اور دعوی کیا کہ مرکزی امریکی میڈيا بھارتی معاملات کے کوریج میں "تعصب" سے کام لیتا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے فیصلوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور بھارتی نژاد افراد سے کہا کہ انہیں امریکی میڈیا سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ٹوئٹر نے بھارتی حکام کے 'اختیارات کے بے جا استعمال‘ کو عدالت میں چیلنج کر دیا
میڈیا پر بھارتی وزیر نے کیا کہا؟
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر واشنگٹن میں بھارتی نژاد امریکیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ میں میڈیا کو دیکھتا ہوں۔ کچھ اخبارات ہیں جو آپ بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا لکھنے جا رہے ہیں، جس میں اس شہر کا بھی ایک اخبار شامل ہے۔"
ان کا اشارہ امریکہ کے معروف اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کی جانب سے تھا جو، واشنگٹن ڈی سی سے شائع ہونے والا قومی روزنامہ ہے۔ ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس اس اخبار کے مالک ہیں۔
کشمیر میں مسجد، مولوی، مدرسے اور میڈیا سب کیسے خاموش کیے گئے؟
بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت اپنی پالیسیوں کے خلاف معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹوں پر نکتہ چینی کے لیے پہلے ہی معروف ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آخر امریکہ میں بھارت مخالف جذبات میں اضافہ کیوں ہوتا رہا ہے، تو انہوں نے کہا، "میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ تعصبات پائے جاتے ہیں، معاملات کے تعین کے لیے واقعی کوششیں ہوتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، "دیکھیے، بھارت جتنے زیادہ اپنے فیصلے خود کرے گا، اتنا ہی زیادہ ان لوگوں کو بھارت میں مشکل ہو گی اور ان پر بحث ہو گی، جو یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کی تشکیل میں ان کا ہاتھ رہا ہے۔"
بھارتی وزیر نے غیر ملکی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے گروپ "بھارت میں نہیں جیت رہے ہیں" اور اس طرح کے گروہ "باہر سے جیتنے کی کوشش کریں گے یا پھر باہر سے ہی بھارت کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "اس سے ہمیں آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں، میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایک کمیونٹی کے طور پر ہمارے لیے یہ بہت ہی اہم ہے۔"
کشمیر پر بھارتی فیصلوں کا دفاع
اس موقع پر جب بھارتی وزیر خارجہ سے کشمیر کی صورت حال پر امریکی میڈیا کے بارے میں سوال کیا گا تو، انہوں نے صورت حال کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے میڈیا کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ رائے اور تاثرات کو تشکیل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بھارتی میڈیا کی پنجشیر میں پاکستانی طیاروں کی بمباری کی خبر غلط ہے، یوکے ڈیفینس
بھارتی وزیر خارجہ نے کشمیر میں اپنی حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں اور بندشوں کو صحیح بتاتے ہوئے کہا،’’کشمیر، انٹرنیٹ نہ ہونے کے بارے میں خوب گانا بجانا ہوتا ہے۔ اب، اگر آپ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں آپ یہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی بندش انسانی جانوں کے ضیاع سے زیادہ خطرناک ہے، تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں؟"
کشمیر پر مودی حکومت کے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے بھارتی وزیر نے مزید کہا، "آپ دفعہ 370 کے معاملے کو ہی دیکھیں۔ یہ آئین کی ایک عارضی شق تھی، جسے ختم کر دیا گیا؟"
کووڈ بحران: بھارت میں میڈیا کو سینسر کیوں کیا جا رہا ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا، "میرے خیال سے اس طرح حقائق کوبدل دیا جاتا ہے اور چیزیں سامنے لائی جاتی ہیں، کیا صحیح اور کیا غلط ہے، اس میں تذبذب پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل سیاسی وجوہات کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔"
بھارتی وزیر نے کہا، "ہمیں اسے یونہی جانے نہیں دینا چاہیے۔ ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بارے میں تعلیم دینی چاہیے اور بیانیے کو ایک شکل دینی چاہیے۔ یہ ایک مسابقتی دنیا ہے۔ ہمیں اپنے پیغامات کو باہر لانے کی ضرورت ہے۔ آپ کے لیے میرا یہی پیغام ہے۔"
عالمی اداروں کے مطابق آزادی صحافت میں بھارت کا شمار دنیا کے ان نچلے ترین ممالک میں ہوتا ہے، جہاں آزاد صحافت سانس لینے کے لیے ترس رہی ہے۔ خاص طور پر کشمیر میں، مودی حکومت پر میڈیا کو پوری طرح سے خاموش کرانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ تاہم بھارتی وزیر سے کسی نے اس بارے میں سوال تک نہیں پوچھا۔