امریکی نائب صدر جو بائیڈن اسرائیل میں
8 مارچ 2010یہ فیصلہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے دورہء اسرائیل سے کچھ ہی گھنٹے پہلے کیا گیا، جس سے ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بظاہر کم ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ موحولیات گیلاد ایردان نے پیر کو اس سرکاری فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب نے گزشتہ سال کے آخر میں یہودی آبادکاروں کے لئے نئی تعمیرات کو عارضی طور پر روکنے کا فیصلہ تو کیا تھا لیکن بیت اللحم میں قائم یہودی آبادی کا منصوبہ Beitar Illit اس فیصلے سے مستثنیٰ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے گھروں کی تعمیر اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے اس اسرائیلی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس تعمیراتی منصوبے سمیت مشرقی یروشلم اورمغربی کنارے میں ہر طرح کی یہودی تعمیرات بند کروائے۔
لیکن اسرائیل کا دورہ کرنے والے امریکی نائب صدرجو بائیڈن نے اس تعمیر پر کسی ردِ عمل کا اظہار کرنے کے بجائے اُس خطرے کی نشاندہی کی ہے، جو اُن کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کوایران کے جوہری پرگرام سے لاحق ہے۔
ایک اسرائیلی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اسرائیلی عوام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی خطرے کی صورت میں واشنگٹن اور تل ابیب دو اتحادیوں کی طرح اس سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔
جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے پر آج پیر کو اسرائیل پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ صدر شمعون پیریز، وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو اور حزبِ اختلاف کی رہنما زیپی لیونی سے منگل کو علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔ بدھ کو امریکی نائب صدر مشرق وسطیٰ کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹونی بلیئر، فلسطینی صدر محمود عباس اور وزیرِ اعظم سلام فیاض سے بھی ملیں گے۔
ان ملاقاتوں کے بعد امریکی نائب صدر بائیڈن اردن روانہ ہو جائیں گے، جہاں جمعرات کو وہ اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات کریں گے۔ جو بائیڈن کا یہ دورہ اُس امریکی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت واشنگٹن فلسطینیوں اوراسرائیل کے مابین بالواسطہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
امریکہ کے خصوصی مندوب برائے مشرقِ وسطیٰ جارج مچل بھی اس وقت اسرائیل میں ہیں، جہاں اتوار کو انہوں نے وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔ آج پیر کو وہ نتن یاہو سے ایک اور ملاقات کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی مل رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق جو بائیڈن کو اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کو کامیاب بنانے میں کافی مشکل پیش آ سکتی ہے کیونکہ ایک طرف اسرائیل نے یہودی آباد کاروں کے لئے نئے تعمیرات کا فیصلہ کر کے مذاکرات کے ماحول کو قبل از وقت ہی تلخ بنا دیا ہے تو دوسری طرف حماس سمیت دمشق میں موجود آٹھ فلسطینی سیاسی جماعتوں نے اس مکالمت کے شروع ہونے سے پہلے ہی اسے مسترد کر دیا ہے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک