امریکی وزیر دفاع سعودی عرب میں
19 اپریل 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا اور سعودی عرب کا اتحاد کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ سعودی عرب امریکا کو تیل فراہم کرتا ہے تو امریکا اس کے بدلے سعودی عرب کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ تاہم ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں بتدریج تناؤ کا شکار ہو گئے تھے۔ سعودی حکمرانوں کا خیال تھا کہ امریکا شامی تنازعے میں براہ راست شمولیت سے گھبرا رہا ہے اور اس کا جھکاؤ خطے میں سعودی عرب کے حریف ملک ایران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
امریکی دفاعی حکام کے مطابق سنی اکثریت رکھنے والا ملک سعودی عرب ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری کے ساتھ تہران حکومت کی بات چیت کے عمل کے دوران خود کو ’’حاشیے سے لگا محسوس کرتا تھا‘‘۔ جولائی 2015ء میں اوباما انتظامیہ کی طرف سے ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ہوا جبکہ اس کے بدلے میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
جیمز میٹس منگل 18 اپریل کی سہ پہر کو ریاض پہنچے۔ حکام کے مطابق میٹس کے اس دورے کا مقصد سعودی رہنماؤں سے ملاقات کر کے ان کی ترجیحات کے بارے میں جاننا اور اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل جیمز میٹس نے سعودی شاہ سلمان، ولی عہد محمد بِن نائف اور شاہ سلمان کے بیٹے اور نائب ولی عہد محمد بِن سلمان سے ملاقاتیں کیں۔ محمد بِن سلمان سعودی عرب کے وزیر دفاع ہیں اور انہوں نے گزشتہ ماہ واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی تھی۔
سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف جنگی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب روانہ ہونے سے قبل جیمز میٹس نے کہا تھا کہ یمن کے تنازعے کے سیاسی حل کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کرائے جائیں۔ یمن میں جنگ بندی کے لیے ابھی تک سات ناکام معاہدے ہو چکے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس سعودی عرب کے بعد مصر، اسرائیل، قطر اور جبوتی بھی جائیں گے۔ ان کے یہ کئی ملکی دورہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔