امریکی ویزے، پانچ لاکھ سے زائد بھارتیوں پر لٹکتی تلوار
5 جنوری 2018یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب خود بھارت میں ملازمتوں کا بحران دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ کی ایچ ون بی ویزا میں توسیع نہ کرنے کی تجویز امریکی کانگریس میں منظور ہوجاتی ہے توامریکا میں کام کرنے والے پانچ سے ساڑھے سات لاکھ کے قریب بھارتی ہنرمند افراد کو سخت مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہیں جو امریکا میں گرین کارڈ کے منتظر ہیں۔
ایچ ون بی ویزا تین سال کے لیے جاری کیا جاتا ہے اور اس میں مزید تین سال کے لیے ایک مرتبہ توسیع کی گنجائش ہوتی ہے۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی محکمہ نے ایسے ضابطے بنانے کی تجویز پیش کی ہے، جن کی رو سے غیر ملکی ملازمین کے گرین کارڈ کی درخواستیں زیر التوا رہنے کے دوران ان کے ایچ ون بی ویزے کی توسیع کو روکا جاسکے گا۔ ایچ ون بی ویزے کی مدت میں توسیع نہ کرنے کی تجویز بنیادی طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’بائے امریکن، ہائر امریکن‘ مہم کا حصہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران اس کا وعدہ کیا تھا۔ اس کا مقصد امریکی شہریوں کی ملازمت کو محفوظ رکھنا اور ان کے لیے ملازمت کے مزید مواقع پیدا کرنا ہے۔ایچ ون بی ویزا ایک نان ایگریمنٹ ویزا ہے، جو امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی ملازمین کو ملازمت پر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا ہر سال پچاسی ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرتا ہے، ان میں سے تقریباً ساٹھ ہزار ویزے بھارتی پروفیشنلز حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ویزے حاصل کرنے والوں کی سب سے زیادہ حصہ داری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیوں میں ہوتی ہے۔
ایچ ون بی ویزے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز منظور ہو جانے سے پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں بھارت، امریکا تعلقات میں تلخی آ سکتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو ماہ قبل بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے امریکا سے کہا تھا کہ وہ ایچ ون بی ویزے کے سلسلے میں ایسا کوئی اقدام نہ اٹھائے، جس سے امریکا میں کام کرنے والے بھارتی پروفیشنلز کے مفادات کو نقصان پہنچے۔ بھارت اس نئی پیش رفت پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بی پی او سے وابستہ کمپنیوں کی نمائندہ انجمن نیشنل ایسوسی ایشن آف سافٹ ویئر اینڈ سروسز کمپنیز (نیسکوم) کے چیئرمین آر چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ چندر شیکھر کا کہنا تھا، ’’ایک اندازے کے مطابق اس طرح کے کسی بھی اقدام سے ایچ ون بی ویزا رکھنے والے ایک ملین سے زیادہ افراد کو امریکا چھوڑنا پڑے گا۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھارتی ہیں جو گرین کارڈ کے منتظر ہیں۔ یہ معاملہ صرف بھارتی آئی ٹی انڈسٹری کا نہیں ہے بلکہ ان تمام بھارتیوں کا ہے، جو ایچ ون بی ویزا استعمال کرتے ہیں اور چونکہ امریکا کو ہنرمند اور پروفیشنلز افراد کی قلت کا سامنا ہے، اس لیے اس طرح کا کوئی بھی پریشان کن اقدام بھارت اور امریکا دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔‘‘ماہرین تاہم اس نئی پیش رفت میں امید کی ایک کرن بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوکہ اس سے انفرادی طور پر تو بڑا نقصان ہوگا لیکن مجموعی طور پر یہ ملک کے لیے فائدہ مند رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے تمام بڑے شہروں میں اختراعی نوعیت کے اسٹارٹ اپ بڑی تیز ی سے شروع ہو رہے ہیں اور حکومت نے تجارت میں سہولت پیدا کرنے کے لئے متعدد اقدامات بھی کئے ہیں۔ اس لئے اتنی بڑی تعداد میں بھارتی تکنیکی ماہرین کی وطن واپسی سے بھارت میں تجارت کو کافی تقویت ملے گی۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا سے بھارتی ہنرمندوں کا وطن واپس لوٹنا، بھارت کے بزنس سیکٹر کو نئی توانائی بخشے گا کیوں کہ ان میں سے بیشتر افراد ایسے ہیں جنہوں نے بھارت میں اعلی ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے اور اب وہ تربیت یافتہ بھی ہو چکے ہیں۔ معروف تجارتی گروپ مہندرا کے چیئرمین آنند مہندرا نے نئی پیش رفت پر ٹوئٹ کر کے کہا، ’’اگر ایسا ہوتا ہے تو میں خوش آمدید کہوں گا، اپنے گھر میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ آپ صحیح وقت پر واپس لوٹ رہے ہیں اور بھارت کی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘‘
بھارت میں مواقع کی کمی اور دیگر عوامل کے سبب ایک مدت سے بھارت کے ہنر مند اور اعلی دماغ وطن چھوڑ کر امریکا اور دیگر یورپی ملکوں کا رخ کرتے رہے ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے بعد اب معاملہ پلٹ سکتا ہے۔