1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی پالیسیوں پر ’مایوس‘ ہوں، ترک صدر

19 نومبر 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں پر ’مایوس‘ ہیں۔ انہوں نے شام اور مہاجرین کے بحران پر واشنگٹن کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Swpb
Türkei Weltenergiekongress 2016 in Istanbul - Erdogan
تصویر: Reuters/M. Sezer

خبررساں ادارے ڈی پی اے نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں پر ’مایوس‘ ہوئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے پروگرام ’ساٹھ منٹ‘ میں ایردوآن نے مزید کہا کہ وہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ فتح اللہ گولن ابھی تک امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ترک حکومت پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے لیے اسی ترک جلا وطن مذہبی رہنما کو مورد الزام ٹھیراتی ہے۔

ترک جمہوریت میں ’جمہوریت‘ کے خلاف کارروائی
امریکا کرد فائٹرز کو ہتھیارفراہم کر رہا ہے، ترک صدر
امریکا گولن کو حوالے کرے، سمجھوتہ نہیں ہو گا: ترک وزیراعظم

سی بی ایس کے پروگرام ’ساٹھ منٹ‘ اتوار کے دن نشر کیا جائے گا لیکن ڈی پی اے کو اس پروگرام کی ریکارڈنگ موصول ہو چکی ہے۔ اس پروگرام میں ایردوآن نے کہا، ’’ہم نے ان مسائل پر امریکی صدر باراک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن سے تفصیل سے گفت گو کی ہے۔ تاہم وہ ان اہم معاملات پر کوئی ٹھوس پیش رفت دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔۔ یہ امر ہمارے لیے تعجب کا باعث ہے۔‘‘

ترک صدر نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے، جب ری پبلکن سیاست دان ڈونلڈ ٹرمپ نئے امریکی صدر کی ذمے داریاں سنبھالنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ بالخصوص شام اور مہاجرین کے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا کہ امریکی پالیسیوں پر ’مایوس‘ ہوئے ہیں۔

ترک صدر شامی خانہ جنگی میں باغی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جب کہ وہ امریکا کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں کہ وہ ابھی تک شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکام رہا ہے۔ ترکی کے اس تنازعے میں مداخلت اس لیے بھی اہم تصور کی جاتی ہے کیوں کہ اس ملک نے دو ملین سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔

ایردوآن معتدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکی حکومت فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہیں کرتی تو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ سن 1999 سے امریکا میں جلا وطنی اختیار کیے ہوئے مذہبی رہنما گولن ماضی میں ایردوآن کے اہم ساتھی تھے لیکن اب ان دونوں میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔

گولن کی امریکا میں موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا، ’’میں ترکی میں بغاوت کے لیے امریکا کو ذمے دار نہیں ٹھیراؤں گا لیکن میرے عوام یہی سوچیں گے کہ آخر امریکا نے اس شخص (گولن) کو پناہ کیوں دے رکھی ہے۔‘‘ ترک صدر نے اصرار کیا کہ گولن کی ترکی حوالگی قانونی طور پر کی جانا چاہیے۔

جرمنی دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، ایردوآن

دوسری طرف فتح اللہ گولن ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ ترکی میں اس ناکام بغاوت کے بعد سے انقرہ حکومت نے ’شر پسند‘ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، جس کے تحت ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے یا شامل تفتیش رکھا گیا ہے۔ اس دوران ترک حکومت میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف بھی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، جس پر مغربی ممالک شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔