امریکیو پریشان نہ ہو،’ مستقبل تابناک ہے‘
13 جنوری 2016باراک اوباما نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی سے یا اقتصادیات کے شعبے میں امریکیوں کو مستقبل میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ان کا آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب تھا۔ اس دوران اوباما نے اپنی حریف جماعت ریپبلکن پارٹی کی جانب سے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خطرے اور ملکی معیشت کے بارے میں بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’’ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں، جو ہمیں مستقبل سے ڈراتے ہیں، یہ ہمیں تبدیلیوں سے روکنے کی کوشش کرتے تھے، یہ ڈراتے تھے کہ کچھ مخصوص گروپس اور ان کی سوچ امریکا پر حاوی ہو سکتے ہیں اور یقین دلاتے تھے کہ ان پر پابندی سے ہی شاندار امریکی دور کو واپس لا یا جا سکتا ہے۔ ہر دفعہ ہم اس خوف پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے‘‘۔
اب سے تین ہفتوں بعد آئیووا میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے اوّلین پرائمری کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اپنے خطاب میں اوباما نے مزید کہا ’’اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ امریکی معیشت تنزلی کی جانب گامزن ہے تو وہ خیالی دنیا میں رہتا ہے‘‘۔ اوباما کے بقول وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شام و عراق میں موجود اسلامک اسٹیٹ ایک بہت بڑا خطرہ ہے ’’ لیکن یہ تنظیم ہمارے قومی وجود کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ اوباما کے مطابق’’جب سیاستدان مسلم برادری کی تذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بالکل غلط ہے اور اس سے دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے‘‘۔ اس موقع پر ان کا اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب تھا، جو ریپبلکن جماعت کی جانب سے صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔
اس خطاب میں اوباما نے امریکا کے بطور عالمی پولیس کے کردار کی مخالفت کی ’’یہ وہ سبق ہے، جو ہم نے ویتنام اور عراق کی جنگوں سے سیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب ہم سمجھ چکے ہیں‘‘۔ اپنے اس خطاب میں اوباما نے پانچ دہائیوں بعد کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی، گوانتانامو کے حراستی مرکز کی بندش میں پیش رفت اور خاص طور پر صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کا ذکر کیا۔ اوباما کے خطاب میں ملک میں رونما ہونے والے نسلی امتیاز کے واقعات کا تذکرہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ضمناً اپنے دور صدارت کی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا۔ ’’مجھے جن چند امور پر افسوس ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ میرے دور میں دونوں حریف جماعتوں کے مابین شک اور تلخی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے‘‘۔