امن فوج کا دباؤ، کوسووو کا سربیا کے ساتھ تنازعہ ختم
6 اگست 2011شمالی کوسووو میں زیادہ تر سرب نسل کی اقلیتی آبادی والے علاقے میں دو سرحدی چوکیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ تنازعہ دو ہفتے قبل شروع ہوا تھا۔ جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ پرشٹینا اور بلغراد کے درمیان اس تنازعے کے حل ہو جانے کی تصدیق کل جمعہ کو کوسووو کے وزیر اعظم نے بھی کر دی تھی۔ لیکن شمالی کوسووو میں ایک اہم شاہراہ کو رکاوٹوں کے ساتھ بند کر دینے والے سرب نسل کے مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ یہ رکاوٹیں تب دور کریں گے، جب سربیا اور کوسووو کے رہنما ہفتہ کو ایک کانفرنس میں یہ سرحدی تنازعہ حل ہو جانے کا اعلان کریں گے۔
اس سے پہلے جمعہ کو کوسووو کے وزیر اعظم ہاشم تھاچی نے کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد کہا تھا کہ پرشٹینا حکومت کو سربیا کے ساتھ دو متنازعہ سرحدی چوکیوں کا مکمل کنٹرول مل گیا ہے۔ کوسووو میں یہ دو سرحدی چوکیاں دو ہفتے پہلے تک سرب حکام کے کنٹرول میں تھیں۔ یہ تنازعہ تب شروع ہوا تھا، جب کوسووو حکومت نے سربیا کے ساتھ تجارت بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی کوسووو کی پولیس نے ان گزرگاہوں پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔
کوسووو حکومت کے اس اقدام کے بعد علاقے میں سرب اقلیتی آبادی کا پرتشدد احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے پیدا ہونے والا بحران گیارہ دن تک جاری رہا۔ اب لیکن کوسووو میں KFOR امن دستوں کی مداخلت اور ان کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں پرشٹینا اور بلغراد کے مابین ایک سجھوتہ طے پا گیا ہے۔
اس تصفیے کے بعد کوسووو کے لیے سربیا کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندے بورسلاو شٹیفانووچ نے علاقے کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر شٹیفانووچ نے شمالی کوسووو میں احتجاجی مظاہرین سے کہا کہ انہیں اس سمجھوتے کو اس میں پائی جانے والی خامیوں کے باوجود تسلیم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کے فور امن دستوں کی ثالثی سے طے پانے والے اس اتفاق رائے کی سربیا بھی حمایت کرتا ہے۔ ان کے بقول اگر شمالی کوسووو میں سرب نژاد مظاہرین نے یہ حل تسلیم نہ کیا تو آئندہ اس بارے میں کوئی بات چیت ممکن نہیں ہو گی۔
یہ تنازعہ اس لیے بھی بہت پیچیدہ ہے کہ شمالی کوسووو میں سرب اقلیت نے اپنے مقامی انتظامی ڈھانچے قائم کر رکھے ہیں۔ یہ اقلیت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا علاقہ جس ملک کا حصہ ہے، اس کا دارالحکومت پرشٹینا نہیں بلکہ بلغراد ہے۔ یعنی یہ سرب اقلیت اپنے علاقے کو کوسووو کی بجائے سربیا کا حصہ قرار دیتی ہے۔ اس سرب اقلیت کے ایک رہنما پانٹچ نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ موجودہ تنازعے کے حل کے لیے طے پانے والا سمجھوتہ بڑا غیر واضح ہے۔
یہ معاہدہ نیٹو امن فوج KFOR کے جرمن کمانڈر جنرل ایرہارڈ بیوہلر کی ذاتی کوششوں کے باعث طے پایا۔ اس سمجھوتے کے تحت کم از کم ستمبر کے وسط تک دونوں متنازعہ سرحدی گزرگاہوں کا کنٹرول امن فوج کے پاس رہے گا۔ ساتھ ہی سرب نسل کے مظاہرین متاثرہ علاقے میں اپنی کھڑی کی گئی تمام رکاوٹیں اگلے چند روز میں دور کر دیں گے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی