امیر سے امیر تر بننے کا ذریعہ، خریدا ہوا سفارتی پاسپورٹ
18 جنوری 2019دنیا بھر میں کسی بھی شخص کو جاری کیا جانے والا کوئی سفارتی پاسپورٹ اس بات کا ضامن ہوتا ہے کہ اس پاسپورٹ کے حامل مرد یا خاتون کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی اور ساتھ ہی ہوائی اڈوں وغیرہ پر اس کا سامان بھی کھولا نہیں جاتا کیونکہ وہ ’ڈپلومیٹک لگیج‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
لیکن اس عمل کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ بہت سے مشکوک کاروباری افراد بھی اب یہ پاسپورٹ ’خریدنے‘ لگے ہیں اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ افریقہ اور ایشیا کے علاوہ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ریاستوں میں یہ دیکھنے میں آ چکا ہے کہ انہوں نے کئی ایسے افراد کو سفارتی پاسپورٹ جاری کیے، جو واضح طور پر مشکوک اور قابل اعتراض فیصلے تھے۔
ماہرین ایسے پاسپورٹوں کے غلط استعمال کی چند مثالیں یہ بھی دیتے ہیں کہ ماضی میں جرمنی میں ٹینس کے سپر سٹار رہنے والے بورس بیکر کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ ان کے پاس بھی ایک سفارتی پاسپورٹ ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے توانائی کے ایک سابق وزیر نے بھی اپنے سفارتی پاسپورٹ میں رد و بدل کر کے قانون کی خلاف ورزی کی جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے ایک سابق محافظ نے بھی اس وقت کئی ماہ تک اپنا سفارتی پاسپورٹ مسلسل استعمال کیا، جب اسے ملازمت سے نکالا جا چکا تھا۔
ماضی قریب میں ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں کہ یورپی یونین کے رکن مالٹا اور قبرص جیسے چند چھوٹے ممالک نے ایک باقاعدہ سرکاری فیصلے کے بعد یورپی یونین سے باہر کے ممالک کے شہریوں کو ایسے پاسپورٹ یا رہائشی پرمٹ جاری کیے، جن کے لیے درخواست دہندگان کو ان ممالک میں بہت بڑی رقوم ادا کرنا پڑتی تھیں یا وہاں سرمایہ کاری کرنا پڑتی تھی۔
دوسری طرف براعظم ایشیا اور افریقہ کے چند ترقی پذیر ممالک اور کئی چھوٹی چھوٹی جزیرہ ریاستوں نے یہ طریقہ بھی اپنایا کہ ان کے بدعنوان اہلکار بڑی بڑی رقوم رشوت کے طور پر لے کر غیر ملکیوں کو ایسے سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیتے تھے، جن کے ساتھ ملنے والی مراعات اور سہولیات یورپی یونین کی شہریت سے بھی زیادہ پرکشش تھیں۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم بدعنوانی کے خلاف جنگ کرنے والے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایڈووکیسی ڈائریکٹر کیسی کیلسو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے والے یہ ممالک نہ صرف ایسی شخصیات کی بطور اعزازی سفارتی نامزدگیوں سے بہت ہی کم سفارتی خدمات اور نتائج حاصل کرتے ہیں بلکہ کئی واقعات میں تو ایسے اقدامات مجرمانہ ارادوں کو دانستہ چھپائے رکھنے کی وجہ بھی بنتے ہیں۔‘‘
قانونی کارروائی سے تحفظ
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت امیر شخصیات یا ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے افراد محض چند لاکھ یورو ادا کر کے نہ صرف اپنے لیے بطور سفارت کار سفری دستاویزات حاصل کر لیتے ہیں بلکہ یوں پکڑے جانے، دیوالیہ ہو جانے اور اپنے خلاف سزاؤں سے بھی بچ جاتے ہیں۔ اکثر ایسے مشکوک سفارتی پاسپورٹوں کے حامل افراد اس ملک کے شہری بھی نہیں ہوتے، جو انہیں یہ دستاویزات جاری کرتے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کیسی کیلسو کہتے ہیں، ’’ایسے سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے کے لیے کئی ممالک میں حکام کی طرف سے بہت سخت ضابطوں پر عمل تو کیا ہی نہیں جاتا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی بہت امیر شخصیت نے کسی ملک میں کسی سیاسی جماعت کو بہت بڑی رقم عطیہ کر دی تو اسے اس جماعت کی حکومت نے سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیا۔‘‘ کئی بار تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ ممالک نہ صرف بہت سے غیر ملکیوں کو اپنے اعزازی سفارت کار نامزد کر دیتے ہیں اور پھر ایسی نامزدگیوں کی کوئی باقاعدہ سرکاری فہرست بھی نہیں رکھی جاتی۔
منشیات کے اسمگلر بھی ’سفارت کار‘
عالمی سطح پر کرپشن کے خلاف سرگرم ایک اور تنظیم ’گلوبل وِٹنَیس‘ (Global Witness) کے مطابق کمبوڈیا میں اب انتقال کر چکے ایک بہت بڑے بزنس مین ایسے بھی تھے، جن کا نام ٹَینگ بُن ما تھا۔ انہیں ان کے ملک کی حکومت نے سفارتی پاسپورٹ جاری کر رکھا تھا حالانکہ ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات تھے اور امریکا میں تو ان کے داخلے پر بھی پابندی تھی۔
اسی طرح سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں رہنے والا ایک شادی شدہ جوڑا، الیاس خراپونوف اور مدینہ خراپونوف، وسطی افریقی جمہوریہ کے نمائندوں کے طور پر سفارتی پاسپورٹوں کے حامل تھے۔ لیکن ان دونوں پر ان کے آبائی ملک قزاقستان میں 300 ملین ڈالر (263 ملین یورو) کے برابر مالیاتی خرد برد کے الزامات بھی تھے اور ان پر باقاعدہ فرد جرم بھی عائد کی جا چکی تھی۔
پابندیوں سے بچنے کا راستہ بھی
افریقہ میں موزمبیق اور مڈغاسکر کے درمیان واقع چھوٹی سی ریاست جرائز کومورو نے گزشتہ برس درجنوں ایسے پاسپورٹ منسوخ کر دیے تھے، جن میں سے کئی سفارتی پاسپورٹ تھے۔ یہ مقامی پاسپورٹ 100 سے زائد ایرانی کاروباری شخصیات کو جاری کیے گئے تھے۔ ان میں سے کئی ایرانی باشندے ایسے بھی تھے، جو مبینہ طور پر تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران کے خلاف عائد کردہ امریکی پابندیوں سے بچنے کے ایک بڑے اسکینڈل میں ملوث تھے۔
اسی طرح گیمبیا کے علاوہ کئی دیگر افریقی ممالک پر بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں ایک ایسا نظام کر رکھا تھا، جس کے ذریعے غیر سفارتی شخصیات کو بائیو میٹرک ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کیے جاتے تھے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے تو ایسے ممالک کے طور پر سینٹ وِنسنٹ اور سینٹ کِٹس اینڈ نیوِس جیسے بہت چھوٹی چھوٹی جزیرہ ریاستوں کا بھی نام لے کر ذکر کیا ہے۔
ٹیکسوں میں چھوٹ اور اسمگلنگ
غیر سفارتی شخصیات اپنے لیے سفارتی پاسپورٹ اس لیے بھی پسند کرتی ہیں کہ یوں انہیں اشیاء اور خدمات کی خریداری کے عمل میں تقریباﹰ ہمیشہ ہی ٹیکسوں میں بہت زیادہ چھوٹ بھی مل جاتی ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن میں تو گیمبیا کے سفارت خانے کے اہلکاروں کے طور پر سفارتی پاسپورٹوں کی حامل کئی شخصیات نے تو یہ بھی کیا کہ سفارت خانے میں استعمال کی صورت میں تمباکو مصنوعات اور الکوحل کی خریداری پر ٹکسوں میں 100 فیصد چھوٹ کی سہولت کو غلط استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اپنے سفارتی مشنوں میں تمباکو مصنوعات اور شراب کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔
ماہرین کے مطابق غلط یا غیر سفارتی استعمال کے لیے سفارتی پاسپورٹوں کا اجراء زیادہ تر ایسے ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے، جہاں بہت زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے۔ ایسے پاسپورٹوں کے حامل غیر مستحق افراد بعد ازاں انہیں منی لانڈرنگ، ناجائز مراعات اور منشیات سے لے کر ہتھیاروں تک کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
نک مارٹن / م م / ش ح