1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابات سے قبل جعلی خبروں کے خلاف بھارت کی جنگ

27 مارچ 2019

بھارتی سیاسی جماعتوں سے سماجی رابطوں کے اکاؤنٹس سے نفرت انگیز بیانات اور جعلی خبریں فوری طور پر ہٹانے کا کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ’اخلاقی ضوابط‘ کو لاگو کرنا مشکل ثابت ہو گا۔ مرلی کرشنن کی رپورٹ:

https://p.dw.com/p/3Fi9z
Indien Wahlen
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe

گزشتہ ہفتے بھارتی الیکشن کمیشن کے ساتھ سماجی رابطوں کو کنٹرول کرنے والی معروف کمپنیوں کے نمائندوں نے ملاقات کی تھی۔ ان کمپنیوں میں فیس بُک، واٹس ایپ، گوگل، ٹک ٹوک اور ٹویٹر خاص طور پر نمایاں تھیں۔ اس میٹنگ کا مرکزی موضوع  انتخابی مہم کے دوران سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم کا غلط استعمال تھا۔

انڈین الیکشن کمیشن کی میٹنگ

 انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ سنیل ارورا نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سماجی رابطوں کی کمپنیاں ضابطہ اخلاق کو مرتب کریں تا کہ اِس پلیٹ فارم کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نفرت انگیز مواد کو ’فلیگ‘ کر کے اُس کی تشہیر کو روکنے کے ساتھ ساتھ ایسا کرنے والے کو قانون کے مطابق سزا بھی دی جائے گی۔

Indien junge Ingenieure auf Jobsuche
بھارت میں انتخابی عمل میں شریک امیدوار سوشل میڈیا کے ذریعے ووٹرز کو خریدنے کی کوشش میں بھی ہیںتصویر: Reuters/D. Siddiqui

قابل اعتراض مواد کا ہٹانا مشکل ہے

بھارتی تجزیہ کاروں اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ماہرین میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ سماجی رابطوں پر قابل اعتراض مواد کا تعین اور ہٹانے کا اصولی فیصلہ کون کرے گا۔ اس تناظر میں حقائق کو چیک کرنے والی ایک ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے بانی پراتیک سنہا کا کہنا ہے کہ اب یہ بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ قابل اعتراض مواد ہٹانے کا فیصلہ بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھے، اب الیکشن کے نزدیک اس کا تعین کرنا بہت ہی مشکل ہو سکتا ہے۔ سنہا کے مطابق اس مناسبت سے الیکشن کمیشن کے ضوابط بظاہر مبہم دکھائی دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا غلط استعمال

Sunil Arora, indischer Chefwahlkommissar
 انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ سنیل ارورا تصویر: Press information department of India

ماضی میں بھارتی انتخابات کے دوران جھوٹی، من گھڑت اور حقائق کے منافی خبروں کی تشہیر کے سلسلے میں سماجی، سیاسی اور عام لوگوں کی تشویش پرزور انداز میں سامنے آ چکی ہے۔ ایسی معلومات کے عام کرنے سے سماجی عدم بےچینی کے ساتھ ساتھ پرتشدد واقعات نے بھی جنم لیا۔ دنیا کے بقیہ علاقوں کی طرح سوشل میڈیا بھارت میں بھی ووٹروں کو متاثر کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔

بھارتی آن لائن مارکیٹ

بھارت میں 460 ملین انٹرنیٹ یوزرز ہیں۔ چین کے بعد یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آن لائن مارکیٹ ہے۔ اگلے دو برسوں میں یہ تعداد 635 ملین سے زائد صارفین پر مشتمل ہو گی۔

فیس بُک کا فیصلہ

سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں انتخابی مواد کی نگرانی کا آپریشن شروع کرنے والی ہے۔ یہ مرکزی دفتر سارے بھارت میں قائم ذیلی فیس بک کی کمپنیوں کے علاوہ مختلف بین الاقوامی دفاتر کے ساتھ بھی رابطے بحال کرتے ہوئے مقامی دفتروں کی رہنمائی کرے گا تا کہ کم از کم جھوٹی خبروں کے سلسلے کا قلع  قمع کیا جا سکے۔ اس آپریشن کے دوران فیس بک نے بھارتی الیکٹشن کمیشن کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

Symbolbild Facebook und Indien
بھارت میں 460 ملین انٹرنیٹ یوزرز ہیں۔ چین کے بعد یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آن لائن مارکیٹ ہےتصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

ووٹرز کو متاثر کرنے کی کوششیں

بھارت میں انتخابی عمل میں شریک امیدوار سوشل میڈیا کے ذریعے ووٹرز کو خریدنے کی کوشش میں بھی ہیں۔ فیس بُک اور واٹس ایپ نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ اُن کے تادیبی اقدامات کے پلیٹ فارم سے ووٹرز کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش ناکامی سے ہمکنار ہو گی۔

قابل اعتراض پیغامات کا تسلسل

 سوشل میڈیا کے ماہرین کا خیال ہے کہ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم سے قابل اعتراض مواد کو ہٹانے اور جعلی اکاؤنٹس کو بلاک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ یہ کئی پرتوں پر مشتمل عمل ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کئی ایسے اکاؤنٹس بھی متحرک و فعال ہیں جو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ نتھی نہیں ہیں لیکن یہ سیاسی جماعتوں کے پیغامات کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔