انتہائی مہلک رائسین سے حملے کے منصوبے کے ملزم جرمن عدالت میں
7 جون 2019جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی جمعہ سات جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان دونوں ملزمان نے جرمنی میں ایک رائسین بم سے حملے کی تیاری کی تھی اور وہ دونوں دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سے متاثر تھے۔ تیونسی نژاد ملزم کو گزشتہ برس جون میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کی جرمن بیوی کو تقریباﹰ ایک ماہ بعد پچھلے سال جولائی کے اواخر میں حراست میں لیا گیا تھا۔
جرمن پولیس کو ان دونوں ملزمان کے مبینہ منصوبے کی اطلاع ایک غیر ملکی انٹیلیجنس ادارے نے دی تھی۔ انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق اس جوڑے نے رائسین سے جو حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، وہ ممکنہ طور پر ایک سو تک انسانی ہلاکتوں کی وجہ بن سکتا تھا۔
اس مقدمے کی سماعت ڈسلڈورف شہر کی انتہائی سخت سکیورٹی والی ایک اعلیٰ صوبائی عدالت میں شروع ہوئی۔ ان دونوں ملزمان کو پندرہ پندرہ سال تک قید کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔
مقدمے کی سماعت کے آغاز پر استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی کہ 30 سالہ تیونسی نژاد ملزم سیف اللہ اور اس کی 43 سالہ جرمن بیوی یاسمین کو اس لیے سخت سے سخت سزائیں سنائی جائیں کہ انہوں نے 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے لیے اپنی ہمدردی کی وجہ سے جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کے لیے ایک ایسا حیاتیاتی ہتھیار تیار کیا تھا، جو بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا تھا۔
جرمنی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں کسی ملزم یا ملزمان کو کسی حیاتیاتی ہتھیار کے ذریعے دہشت گردانہ حملے کی تیاری کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان ملزمان کی گرفتاری کے ساتھ ہی جرمن تفتیشی اہلکاروں نے ان کے کولون شہر کے کوروائلر نامی علاقے میں واقع فلیٹ سے انتہائی زہریلا مادہ رائسین بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
استغاثہ کے مطابق ان ملزمان نے کسی ریستوراں یا شاپنگ سینٹر جیسی بند جگہ پر اس رائسین بم سے حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے لیے سیف اللہ اور اس کی بیوی نے رائسین انٹرنیٹ کے ذریعے خریدی تھی۔ ساتھ ہی اس بم کو زیادہ سے زیادہ ہلاکت خیز بنانے کے لیے 250 ایسے چھوٹے چھوٹے فولادی گولے بھی خریدے گئے تھے، جن کے ذریعے وہ اپنی اس مبینہ کارروائی کو ایک 'کلسٹر بم‘ سے حملے کے طور پر عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔
اس بم میں استعمال کے لیے خاص طرح کا بارودی مواد سیف اللہ نے پولینڈ جا کر خریدا تھا۔ استغاثہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ دونوں ملزمان طویل عرصے سے خود کو نہ صرف داعش کے اہداف و مقاصد کا حامی قرار دیتے تھے بلکہ وہ اس شدت پسند تنظیم کے نام نہاد 'جہاد‘ میں عملی طور پر شامل بھی ہونا چاہتے تھے۔
اس مقدمے کی عدالتی سماعت کے پہلے روز دونوں ملزمان نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور اپنے وکلاء کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ وہ فی الحال اپنے خلاف عائد کردہ الزامات کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
م م / ا ب ا (ڈی پی اے)