اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور انسانوں کی المناک کہانیاں
2 جولائی 2014تین روز قبل رامیلا بی بی ایک نومولود بچے کی ماں تھی۔ 28 جون کو ایک ماہ کا یہ بچہ اپنی ماں کی بانہوں میں ابدی نیند سو گیا۔ اُسے اُس وقت سینے کے انفیکشن نےجکڑ لیا تھا جب اُس کے گھر والے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کے ایک وسیع آپریشن کے سبب اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ اس فوجی کارروائی کی وجہ سے قریب نصف ملین افراد بے گھر ہو کر شمالی وزیرستان سے ہجرت کر گئے ہیں۔
39 سالہ رامیلا بی بی کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہے اور وہ اپنی دُکھ بھری داستان سناتے ہوئے کہتی ہے، " میرا بیٹا 2 جولائی کو ہمارے آبائی شہر میں پیدا ہوا تھا، وہ بہت ہی خوبصورت اور صحت مند تھا اگر ہم بے گھر نا ہوئے ہوتے تو وہ آج زندہ ہوتا"۔
رامیلا بی بی طویل عرصے تک آنسو بہانے اور اپنے نومولود بچے کا سوگ منانے کی متحمل بھی نہیں۔ بہت جلدی اُسے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اُن چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے گا جو اندرون ملک مہاجر بننے والے 468,000 افراد کو درپیش ہیں۔ پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی پہاڑی علاقوں میں طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد گھر بار سے محروم ہوئے ہیں اور انہیں ملک کے اندر مہاجرت کرنا پڑی ہے۔ 15جون کو پاکستانی فوج نے طالبان کے خلاف جو کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اُس کی ایک بڑی وجہ جنوبی بندرگاہی شہر کراچی کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ بنی ، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
2005 ء سے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کے قبائلی علاقے میں عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کی کوششوں میں کافی حد تک ناکامی کے بعد اب پاکستانی فوج تمام تر توجہ 11,585 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے علاقے شمالی وزیرستان پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ یہی علاقہ ایک عشرہ قبل افغانستان پر امریکی قبضے سے فرار ہو کر پاکستان کی طرف رُخ کرنے والے طالبان باغیوں کا گڑھ بن گیا جہاں وہ آزادی سے رہتے رہے۔
چند سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف سخت گیر اقدام کیا ہے تاہم عام شہریوں کے لیے یہ کیا معنی رکھتا ہے۔ انہیں تو کئی سالوں سے جاری اس جنگ کے نتیجے میں بے گھر اور بے سروسامانی، بھوک اور بیماریاں ہی ملی ہیں۔
پاکستانی فوج کی طالبان باغیوں کے خلاف حالیہ کارروائی کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور لاکھوں شہری 45 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں مسافت طے کر کے ذہنی اور جسمانی طور پر خاتمے کے قریب ہونے کی کیفیت میں صوبے خیبر پختونخواہ کے ایک قدیم شہر بنوں کے مہاجر کیمپوں تک پہنچے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ مزید مہاجرین کا بوجھ اُٹھانے کا ہر گز متحمل نہیں ہے۔ گزشتہ 9 برسوں کے دوران قریب ایک ملین پناہ گزینوں نے اس صوبے کا رُخ کیا۔ پناہ گزینوں کا حالیہ سیلاب اس صوبے کی انتظامیہ کے لیے چیلینج سے کم نہیں۔ مایوسی اور بے سرو سامانی کے شکار لاتعداد خاندانوں کو کس طرح پناہ دی جائے؟ یہ کے پی کے حکومت پر بھی بہت بڑا بُوجھ ہے۔