انسان نے بالآخر ’مصنوعی زندگی‘ بھی ایجاد کر لی
22 مئی 2010محققین نے بیکٹیریا کے لئے بنایا جانے والا ایک جینیٹک سوفٹ ویئر تیار کیا ہے اور اسے ایک میزبان خلیے میں داخل کیا گیا۔ اس طرح نیا تخلیق پانے والا زندہ خلیہ انہیں علامات کا حامل تھا، جو اس کے ڈی این اے سوف ویئر میں رکھی گئی تھیں۔
ناقدین نے اس عمل کو غیر ضروری اور خطرناک قرار دیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس قدم کو ضرورت سے زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس عمل کی مدد سے ادویات کی تیاری، ایندھن اور گرین ہاؤس گیسوں کو جذب کرنے والے بیکٹریاز کی تیاری میں مدد ملے گی۔
میری لینڈ کیلیفورنیا میں واقع کریگ وینٹر انسٹیٹیوٹ میں اس تحقیق میں مصروف ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر کریگ وینٹر تھے۔ اس سے قبل اس ٹیم نے بیکٹریا کا ایک جین تیار کیا تھا۔ اس جین کی مدد سے ایک بیکٹریا کو دوسرے بیکٹریا میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ تاہم اس نئے تجربے میں دونوں عمل استعمال کئے گئے ہیں۔ یعنی ایک تو جین کی مدد سے ایک بیکٹریا کو دوسرے میں تبدیل کیا جائے اور دوسرا نئے تخلیق پانے والے خلیے میں ڈی این اے میں ہدایات اپنی مرضی کی رکھی جائیں۔
اس طریقہ کار کی مدد سے ایک زندہ بیکٹریا کے جین کی نقل تیار کی جاتی ہے پھر اس کے جینیاتی کوڈ کے ذریعے کیمیکلز اورسینتھیسس مشینوں کے سہارے سے ویسا ہی ایک نیا خلیہ تیار کر لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر وینٹر نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں بتایا کہ اب وہ اس قابل ہو گئے یں کہ اپنے کروموسومز کو کسی اور خلیے میں داخل کر سکیں اور انہیں مختلف افعال کی ہدایات دیں۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی یہ نیا سوفٹ ویئر کسی خلیے میں داخل ہوتا ہے، وہ خلیہ اسے پڑھتا ہے اور اس جینیٹک کوڈ میں لکھی معلومات کی بنا پر اسی حیاتیاتی قسم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
نیا تخلیق پانے والا خلیہ خود اپنی اربوں نقلیں تیار کر سکتا ہے اور اسے مصنوعی ڈی این اے کی مدد سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے، جب ڈی این اے ہر اعتبار سے خلیے کے احکامات پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ انہوں نے اس تجربے کی کامیابی کو ’نیا صنعتی انقلاب‘ قرار دیا۔
ڈاکٹر وینٹر اور ان کی ٹیم اب ایک ایسے یک خلوی بیکٹریا کی تیاری میں مصروف ہے، جس سے اپنی مرضی کے افعال انجام دلائے جائیں۔
’’اگر ہم حقیقی طور پر اپنی مرضی کے مطابق ایسے خلیوں کی بڑی تعداد میں تیاری میں کامیاب ہوگئے تو ان کی مدد سے ہم ایندھن بھی بنا لیں گے اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو دوبارہ اصل حالت میں لانے میں بھی ان بیکٹریاز سے مدد حاصل کر پائیں گے، کیونکہ ان کے ذریعے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈکے انجذاب کی خدمات بھی لی جا سکیں گی۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : کشورمصطفیٰ