انسانی ارتقا: آغاز کے نئے مضبوط ثبوت
اسرائیل میں قدیمی انسان کے فوسلز کی دریافت نے انسانی ارتقا کے بارے میں نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس پکچر گیلری میں موجودہ انسان کے آبا و اجداد کے حوالے سے معلوماتی تصاویر موجود ہیں۔
خاندان کی نئی شاخ
اسرائیل میں ایک گڑھے میں سے ایک نامعلوم قدیمی دور کے ایک انسان کا فوسل ملا ہے۔ یہ ایک لاکھ سال قبل کا ہے۔ ان حجریوں میں ایک کھوپڑی اور جبڑا ہے۔ یہ کسی ایسے شخص کا ہے جو قریب ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ چالیس سال قبل موجود تھا۔
آدمی جیسا
انسان کی اس باقیات کا نام ’نیشر رملا ہومو ٹائپ‘ تجویز کیا گیا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ نیشر رملا مقام سے ملنے والی باقیات قدیمی انسان کے آخری بچ جانے والے افراد کی ہیں۔ یہ یورپی نیئنڈرتھال کے قریب ترین ہیں۔ ریسرچرز کا خیال کے یہ قدیمی انسان بھارت اور چین تک کے سفر پر بھی گئے کیونکہ وہاں بھی ایسے فوسلز ملے تھے۔
نیئنڈر تھال کا پرانا امیج
پوپ کلچر میں غیر ضروری انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے دور کے حجری انسان ڈنڈے کے لیے کمر پر ڈنڈے لادے پھرتے تھے۔ یہ ایک پرانی تحقیق سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ جو سن 1908 میں دریافت ہونے والے انسانی ڈھانچے کے حوالے سے ہے۔ اس استخوان کی کمر اور گھٹنے وزن اٹھانے سے خم زدہ تھے۔ اس دریافت کی وجہ سے اکسفرڈ ڈکشنری میں ایسے انسانوں کے لیے ’پریمیٹیو‘ وغیرہ جیسے الفاظ شامل کیے گئے۔
سوچ سے زیادہ قریب
یہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ نیئنڈر تھال عہد کے انسان آلات بنانے کے تیز ترین طریقوں سے آشنا تھے۔ وہ جلد آگ جلانے کے ساتھ بڑے جانوروں کے شکار میں مہارت رکھتے تھے۔ نیئنڈر تھال دور کے انسان آج کے دور کی طرح بڑے جانوروں کی نسلوں کے ملاپ کا فن بھی جانتے تھے۔
بیٹلز کا گیت
مشہور پوپ میوزیکل بینڈ بیٹلز کے گیت ’لوسی اِن دا سکائی وِد ڈائمنڈز‘ میں ایک نسائی ڈھانچے کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس گیت کے بعد اس استخوان یا ڈھانچے کو ’آسٹرالو پیتھیکس افارینسیس‘ کا نام دیا گیا۔ اس استخوان کو بیسویں صدی میں بہت شہرت ملی تھی کیونکہ ریسرچرز نے اسے اولین انسانی نسل سے جوڑا تھا۔ یہ ڈھانچہ سن 1978 میں ایتھوپیا میں حجری دور کے ماہر ڈونلد سی جانسن نے اپنی تحقیق کے دوران دریافت کیا تھا۔
فلو عرف ہابٹ
ہابٹ کے استخوان کو عام طور پر ’فلو‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی جسامت چھوٹی تھی۔ ایسے انسان کا ایک استخوان انڈونیشی جزیرے فلوریس میں سن 2004 میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا۔ یہ استخوان بھی ایک عورت کا تھا۔ اس کا تعلق ماہرین نے ’ہومو فلوریسیئنسیس‘ سے کیا تھا۔ یہ قریب بارہ ہزار سال پرانا انسانی ڈھانچہ ہے۔ اس استخوان کی لمبائی صرف تین فٹ سات انچ تھی۔ اس چھوٹی جسامت کی بنیاد پراسے ہابٹ قرار دیا گیا۔
دو پایوں کا اولین ثبوت
سن 1924 میں ایک جنوبی افریقی علاقے تاؤنگ میں کام کرنے والے کان کنوں کو ایک عجیب سے کھوپڑی ملی۔ یہ انسانی جسم کے ماہر ریمنڈ ڈارٹ کو پیش کی گئی۔ انہوں نے اس پر ریسرچ کر کے بتایا کہ یہ ایک تین سالہ انسانی بچے کی ہے۔ اس کھوپڑی کا نام ’آسٹرالوپیتھیکس افریکانوس‘ رکھا گیا یہ کھوپڑی تین ملین پرانی تھی۔ اس کھوپڑی نے اس نظریے کو تقویت دی کہ انسان کا اِرتقا افریقہ میں ہوا نا کہ ایشیا اور یورپ میں۔
ڈی این اے کی از سر نو تشکیل
سن 2008 میں روسی ماہر آثار قدیمہ میشیل شنکوف نے روسی قزاقستانی سرحد کے نزدیک التائی پہاڑی سلسلے میں سے ابتدائی انسانی استخوان کا ایک نمونہ ڈھونڈ نکالا۔ اس کے ذریعے انسانی ڈی این اے کا کھوج لگایا گیا۔ اس استخوان کا نام پہاڑی سلسلے کی مناسبت سے ’ڈینسووانِس‘ رکھا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی افریقہ سے مہاجرت کر کے اس علاقے میں پہنچے تھے۔ یہ نیئنڈر تھال اور ہومو سیپیئنز سے پہلے کی مہاجرت تھی۔
ہومو سیپیئنز کے نئے رشتہ دار!
سن 2015 میں جنوبی افریقہ کی رائزنگ اسٹار غاروں کے طویل سلسلے میں سے پندرہ قدیمی انسانوں کی پندرہ سو ہڈیاں دریافت ہوئی تھیں۔ خیال کیا گیا کہ یہ ہڈیاں ’ہومو نالیدی‘ انسانی گروپ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس دریافت پر ابھی تک ماہرین ایک حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا کہ یہ ابتائی انسانوں کی ہڈیاں ہیں یا انتہائی قدیمی ’ہومو ایریکٹس‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔
کہانیاں سناتے نشانات
پرانے انسانوں کا سراغ ان کے غاروں میں کندہ فن سے ملا ہے، کولمبیا کی چربیکیٹ نیشنل پارک میں بائیس ہزار سال پرانی غاریں دریافت کی گئیں۔ ان میں سے کچھ ایسے نکات ماہرین آثار قدیمہ کو ملے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان سب سے پہلے امریکی خطے میں بیس سے تیس ہزار سال قبل پہنچے تھے۔
قدیم ترین غار آرٹ
سن 2021 میں آسٹریلوی اور انڈونیشی ماہرینِ آثار قدیمہ نے انڈونیشیا کے علاقے سُولاویسی میں ایسی غاریں ڈھونڈ نکالی، جن میں پرانے دور کے آرٹ کے نشانات ملے۔ ماہرین کے مطابق یہ غار آرٹ پینتالیس ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ ان آرٹ میں استعمال رنگوں پر کاربن ٹیسٹ سے قدیم دور کی تاریخ معلوم ہوئی ہے۔